برصغیرمیں اردو اسلام کی نمائندہ زبان ہے

Urdu language

Urdu language

اردو زبان بڑی میٹھی زبان ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے کروڑوں لوگ شعوری اورغیرشعوری طورپراس کے گرویدہ ہیں۔یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتابلکہ زبان تو اظہارو ترسیل کا ذریعہ ہوتی ہے جسے کوئی بھی قوم اپنے زیراستعمال لاسکتی ہے مگریہ اردوزبان کی بدقسمتی ہے کہ اسے مسلمانوںکے ساتھ جوڑا گیا اور اب تک جوڑا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامیات کا ایک عظیم ذخیرہ اس میں منتقل ہوچکاہے ۔عربی کے بعداردو دوسرے نمبرپرہے کہ اسلام کے تعارف کے لیے اس زبان میں کتابیں لکھی گئیں اوراب تک لکھی جارہی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی وراثت کوروشناس کرانے میں اب اردو ، فارسی سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ ا س لیے ظاہرہے کہ غیرارادی طورپرمسلمان ا س سے قریب ہوئے توفرقہ پرست طاقتوں نے اسے مسلمان اوراسلام سے جوڑدیا اور اسی بنیادپریہ اب تک تعصب کی ماربرداشت کرتی چلی آرہی ہے ۔ اردو کو جو حق ملناچاہیے تھا ،نہیں ملا۔ا س میں حکومت کی جانب داری توہے ہی مسلمانو ںکی بھی بہت ساری کوتاہیاں رہی ہیں۔مسلمانوں کی نئی نسل اب اردوسے نابلدہوتی جارہی ہے۔ اس میں ان کی اولادیں بھی شامل ہیں جواپنی تحریروںاورتقریروں میں اردوکا رونا روتے ہیںاوراردوکی ترقی کی بات کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے بچے انگلش میڈیم اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اورانہیں اسی میں اپنا مستقبل تاب ناک نظر آتا ہے ۔یہ لوگ بلکہ اس ملک کی ایک بڑی اکثریت یہی کہتے سنائی دیتی ہے کہ اردوزبان میں کیرئرنہیں بنایا جا سکتا اوراگربن بھی گیاتوپرکشش تنخواہ نہیں مل پاتی۔یہ بات کچھ حدتک صحیح بھی ہے اورکچھ حدتک غلط بھی۔

ہم میں سے اکثر لوگ یہ اعتراض کرتے ہیںکہ اردوزبان اس لیے ترقی نہیں کررہی ہے یااس میں کیرئراس لیے نہیں بن پاتاکہ اسے روزی روٹی سے نہیں جوڑا گیا ہے ۔ جس دن یہ روزی روٹی سے جڑ جائے گی تواس کی ترقی شروع ہوجائے گی ۔ا س ضمن میں ہم لوگ حکومتی اورسرکاری اہل کاروں کوکوستے رہتے ہیں۔ا س سلسلے میں عرض یہ ہے کہ روزی روٹی کامسئلہ کسی زبان سے نہیں، تعلیم سے جڑاہوتاہے ۔تعلیم جتنی بہتراورمعیاری ہوگی ترقی اتنی ہی رفتارسے قدم بوسی کے لیے دوڑتی ہوئی آپ کے پاس آئے گی ۔ زبان سے کیرئرنہیں بنتے اورنہ ہی اس سے ترقی ملتی ہے ۔ایک مثال ملاحظہ کرتے چلیں۔ گجرات کی زبان گجراتی،مہاراشٹرکی زبان مراٹھی،بنگال کی زبان بنگالی ،کیرلاکی زبان ملیالم ،تمل ناڈوکی زبان تیلگواوردیگرریاستوں کی اپنی اپنی علاقائی زبانیں ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے شہری بہت ترقی کررہے ہیں اورنہایت اعلیٰ مناصب پرفائزہوکرپرکشش تنخواہیں حاصل کررہے ہیں۔شاذونادرہی کوئی ایساہوگاجویہاں پیدا ہوا ہو اوریہاں کی علاقائی زبان سے آشنانہ ہو۔ان لوگوںنے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا اورنہ ہی یہ شکوہ کیاکہ حکومت ہماری(علاقائی) زبانوں کے ساتھ ناانصافی کررہی ہے مگرا س کے باوجودوہ لوگ لائق رشک کامیابیا ںحاصل کررہے ہیں۔کیوں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم میں آگے ہیں ، ٹکنالوجی میں آگے ہیں ،عصری تقاضوں کوسمجھ رہے ہیں اوراسی کے مطابق اپناتعلیمی رخت سفرباندھ رہے ہیں۔یہ اردووالوں کی کم نصیبی ہے کہ وہ اردوزبان کے غم میں مرے جارہے ہیںاوراردوزبان کے دروازے سے ترقی کی منزل تک پہنچناچاہتے ہیں۔ وہ زبانی دعوے توبہت کرتے ہیں، عملاًکچھ نہیں کرتے۔انہیں معلوم ہوناچاہیے زبان کوئی بھی ہوکسی بھی قوم کی تہذیب کی آئینہ دارہوتی ہے ۔زبان کسی بھی قوم کی تہذیب وثقافت کارس چوس کراپنے چاہنے والوں کے لیے ضیافت طبع کاسامان کرتی ہے۔کسی بھی علاقے یاریاست کی زبان ہووہ اپنے علاقے کی نمائندگی کرتی ہے اس لیے اس ریاست یاعلاقے کا شہری ویسی ہی زبان استعمال کرتاہے۔

آج جوبھی لوگ ترقی پرہیں سب کی اپنی اپنی علاقائی زبانیں ہیں۔ وہ جب اپنے اہل خانہ اور رشتے داروں کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہی زبان استعمال کرتے ہیں جس میںان کی تہذیبی خصوصیات کروٹیں لے رہی ہوتی ہیں اورجب وہ اپنے پروفیشن میںہوتے ہیںتووہ اسی زبان کواستعمال کرتے ہیں جس میں انہوںنے ترقی کی ہوتی ہے ۔آپ نظراٹھاکردیکھیے پورے منظرنامے میں آپ کویہی ملے گا۔اب رہایہ سوال کہ اردوالے (اگرانہیں اردوالاکہاجائے کیوں کہ زبان کسی بھی قوم کی ملکیت نہیں ہوتی)شکوہ سنجی کیوں کرتے ہیں؟۔اس کاجواب یہ ہے کہ کہ اردووالے اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرہ حکومت اورفرقہ پرست طاقتوںکے سرپھوڑکردراصل اپنی ناکامی اورکم ہمتی کوچھپاناچاہتے ہیں۔وہ محنت کرناجانتے ہی نہیں ۔وہ اردوکوروزی روٹی سے جوڑنے کااصرارکیوں کررہے ہیں؟اردوکی تعلیم پرتوجہ کیوں نہیں دیتے ؟ہمارے ادارو ںکی صورت حال نہایت افسوس ناک ہے کہ یہاںاردوکی تعلیم نہایت غیرمعیاری ہورہی ہے ۔بڑے بڑے اردو میڈیم اسکول توقائم ہیں لیکن اساتذہ غیرمعیاری ہیںالاماشاء اللہ ۔جب اردوتعلیم بہترنہیں ہوگی توترقی بھی نہیں ہوگی ۔لہٰذازبان کوروزی روٹی سے جوڑنے کے بجائے تعلیم سے جوڑدیجیے ترقی کے دروازے خودبخودواہوتے چلے جائیں گے ۔اردوزبان کوسرکاری زبان کا درجہ دیناہماراکام نہیں ،حکومت کاکام ہے لیکن جوکام ہماراہے ہم اس میں انصاف نہیں کرتے توحکومت سے انصاف کی بھیک کیوں مانگتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ جولوگ اردوکی دشمنی میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں وہی غیرشعوری طورپراردوکے اسیربھی ہیں۔اسی لیے اگرکوئی یہ کہے کہ اردوزبان مٹ رہی ہے تووہ غلطی پرہے۔اگراسے مٹناہی تھا توکیاساٹھ سال کاعرصہ اس کے لیے کم ہوتاہے؟۔اس عرصے میں یعنی آزادی کے بعداردوکومٹانے کے لیے کیا کیا نہیں کیا گیا اور حکومتی سطح پرکیسے کیسے اقدام نہیں کیے گئے ۔جب ا س حالت میں اردونہیں مٹی اورنہ اب مٹ رہی ہے تواسے آگے بھی کوئی نہیں مٹاسکتاکیوں کہ اردوایک بہت بڑی سچائی ہے اوریہ سچائی اتنی آسانی سے مٹنے والی نہیں۔اگرحقیقت پسندانہ تجزیہ کیاجائے تویہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہماری قومی زبان ہندی جوملک کی سرکاری زبان بھی ہے اوراس کے تحفظ کے لیے سوسوجتن کیے جاتے ہیں، اب مٹنے کے کگارپرہے۔آپ کوئی بھی ہندی روزنامہ اٹھالیں اوراس کامطالعہ کریں اورخا ص طورپرادارتی صفحے پرنظرڈالیں تویہ بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مضمون کے زیادہ ترنہیں توکم ازکم نصف الفاظ ہندی کے نہیں ہوں گے بلکہ ا س میں اردوکی آمیزش ہوگی یااردوکی ٹوٹی ہوئی شکل ملے گی ۔ اردوکی شیرینی کااندازہ اس سے لگائیے کہ اردوشعراکے بہت سارے اشعاراورمحاورے عام لوگوںکی زبان پرہیں۔ہندوئوں میں بھی پڑھے لکھے لوگوں کاایک بڑاطبقہ ایساہے جسے اردوکے اشعار ازبر ہیں اوروہ وقتاًفوقتاً اپنی گفتگواورتحریروتقریرمیں انہیں استعمال کرتے ہیں۔ باخبرلوگ جانتے ہیں کہ اسمبلی ،پارلیمنٹ یاسیاسی جلسوں وغیرہ میں ہندوایم پی ،ایم ایل اے اوروزرا اپنی تقریروں میں جتنی کثرت سے اردوکے اشعارکوٹ کرتے ہیں ہندی شعرا کے نہیں کرتے بلکہ ایک دوشعراکے علاوہ مثلاً کبیرداس یاسورداس کے دوچنددوہوں کے علاوہ کسی اورشعراکے دوہے کوٹ نہیں کرتے ۔پتہ چلاکہ اردواب لاشعورکی زبان ہوچکی ہے۔ کوئی باہرسے کتنی ہی مخالفت کرے مگرجودل میں ہے وہ زبان پرآہی جاتاہے۔

بالی ووڈ میں فلمیں توہندی کے نام پربنتی ہیں مگروہاں بھی اردوکاجادوسرچڑھ کربولتاہے ۔آپ ہمیں کوئی ایک بھی ایسی فلم دکھادیں جہاں اردوکے مکالمات نہ بولے جاتے ہوں۔اگریہاں ہندی زبان بولی جائے یاہندی کے ڈائیلاگ استعمال کیے جائیں تو فلموں کے ناظرین ہندی جاننے اورسمجھنے کے باوجوداسے کبھی پسندنہیں کریں گے ۔ کیوں کہ اردو میں جوچاشنی ، جاذبیت اورموسیقیت ہے ہندی ا س سے یکسرخالی ہے ۔یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ فلموں کے پروڈوسرس فلموں کوتجارتی نقطۂ نظرسے بناتے ہیں ۔وہ ایک کروڑ لگاتے ہیں تواس سے پچاس کروڑمنافع کماتے ہیں ۔توسوال یہ ہے کہ اگراردوزبان مررہی ہے یااردوکی چاشنی کم ہوتی جارہی ہے توفلموں کے پروڈوسرس کروڑوں روپیہ ضائع کیوں کرتے ہیں ا ورکیوں اپنی فلموں کے لیے اردوکے ماہرین سے مکالمے ،نغمے اورگانے لکھواتے ہیں؟ ۔بالی ووڈکے گانے تقریباً ہرنوجوان کی زبان پرہوتے ہیں اس میں ننانوے فی صدالفاظ اردوکے ہی ہوتے ہیں ۔وہ اردوالفاظ کی معنیاتی سطح سے واقف نہیں ہوتے مگرپھربھی اسے گنگناتے ہیں ۔اگرالفاظ اردوکے نہ ہوں تووہ گانے کبھی بھی مقبول نہیں ہوسکتے۔اگرایسانہیں ہے توفلموں کے لیے اردو کا سہارا کیو ں لیاجارہاہے؟ہندوستان کے باہر دیگر ممالک میں بھی جہاں یہ فلمیں دکھائی جاتی ہیں، اردومقبو ل ہے اورایک بڑی تعداداردوکی زلفوں کی اسیرہے ۔جولوگ باہری ممالک کادورہ کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ دنیاکے کسی بھی علاقے میں ایسے لوگ ہزاروں کی تعدادمیں مل جائیں گے جواردوغزلوں کے دل دادہ ہیں ۔ کوئی مہدی حسن کوسن رہاہوتاہے ،کوئی لتامنگیشکرکی جادوئی آوازسے اپنے من کی دنیاکوشاداب کرتاہے اورکوئی گلزارکے نغموں اورغزلوں کوسن کراپنے ذوق سماعت کی تسکین کرتاہے۔

اردو زبان کے تحفظ کے لیے مزیدکوششیں جاری رکھنا چاہیے۔حکومت سے شکوہ کرنابیکارہے ۔مطلب یہ نہیں کہ حکومت سے بالکل ہی مطالبہ نہ کیاجائے ۔ بلاشبہہ حکومت اردوکے ساتھ ناانصافی کررہی ہے ۔وہ دوسری زبانوں کے ساتھ ویساسلوک روانہیں رکھتی جواردوکے ساتھ اپناتی ہے ۔ا س لیے قانونی طورپراس کے لیے بھی جدوجہد جاری رکھناچاہیے مگرا س سے زیادہ اپنے اپنے طورپراوراجتماعی طورپراردوذریعہ ٔ تعلیم کومضبوط سے مضبوط ترکرناچاہیے۔اگرہم نے یہ مضبوط محاذ سر کر لیا تودیگرسارے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ایک بات یہ بھی یادرکھیے کہ اگرآپ نے اردوکوچھوڑدیابھی توبھی اردوآپ کونہیں چھوڑے گی ۔جولفظیات آپ کے تحت الشعورمیں رچی بسی ہیں وہ ظاہر ہو کرہی رہتی ہیں ۔اردوکی لفظیات ہماری آپ کی تہذیب کی فضامیں سانسیں لیتی ہے اس لیے اردوکابھلاناآسان نہیں ہوگا۔اردوکے لیے جہاں جہاں بھی بندباندھے جائیں گے وہ چور دروازے سے داخل ہو کر اپناکام کرتی رہے گی ۔ماضی کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ حکومتی سطح پرا س کے ساتھ سوتیلابرتائو کیاگیامگریہ ہمیشہ اپنی اہمیت منواتی رہی۔یہ بات دماغ سے نکال دیجیے کہ مسلمانوں کی ترقی اسی وقت ہوگی جب اردوکوروزی روٹی سے جوڑاجائے گابلکہ آپ یہ بات گرہ باندھ لیجیے کہ اردوآپ کی تہذیب کی نمائندہ ہے ، آپ کے دین کاایک بڑاسرمایہ اس زبان میں منتقل ہوچکاہے۔

برصغیرکے اکثروبیش ترعوام وخواص کے درمیان ترسیل وابلاغ کی بھی یہی زبان ہے اورسب سے اہم بات یہ کہ یہ آپ کی مادری زبان ہے ۔ اس لیے اس زبان سے غفلت نہ برتئے بلکہ اس میں محنت کیجیے اورترقی کے لیے عصری تقاضوں کومدنظررکھیے اوراس کے مطابق خودکوتیارکیجیے۔ آپ اردوزبان کواس لیے مت حاصل کیجیے کہ ا س میں آپ کوترقی کے مدارج طے کرناہے ۔اگرترقی مل گئی تواللہ کی عنایت سمجھیے ۔بلکہ اس تصورکوقبلہ بنائیے کہ ا س وقت یہ برصغیرمیں ہمارے دین کی نمائندہ زبان ہے اوراس کے الفاظ ہماری تہذیب کے چشمے سے سیراب ہوتے ہیں۔ہمارامشاہدہ ہے کہ اردوکی ترقی کے لیے خودمسلما ن ہی سنجیدہ نہیں ہیں۔یہ بات صحیح ہے کہ زبان کسی قوم کی ملکیت نہیں ہوتی مگرکسی قوم سے منسوب ضرورہوتی ہے۔جیسے عبرانی زبان یہودیوں کی ملکیت نہیں ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اسے سیکھ ہی نہیں سکتالیکن یہ ان کی قومی زبان ہے ۔لہذا اگر اردو کومسلمانوں سے منسوب کیاگیاتوکیاغلط ہوا۔ہمیں خوشی تو اس بات کی ہے کہ یہ انتساب اسلام کی بنیادپرہواہے کہ اردواس وقت برصغیرمیںاسلام کی نمائندہ زبان ہے ۔چاہیے تویہ تھا کہ اس زبان کے فروغ واستحکام کے لیے ہم خودآگے آتے مگرہم نے حکومت کے آگے دریوزہ گری کرنی شروع کردی ۔ ذرا غور کریں کہ اس وقت اردواخبارات کے قارئین کی تعدادکتنے فی صدہے اور دیگرعلاقائی زبانوں کے اخبارات کے قارئین کتنی تعدادمیں ہیں؟ ۔جائزے سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں میں زمین آسمان کافرق ہے ۔ہم نے دیکھاہے کہ لوگ دوسری ریاستوں میں رہتے ہیں مگراپنی ریاست سے یااپنی علاقائی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات روزانہ خریدکرپڑھتے ہیں۔ان کی زبان ا س لیے زندہ ہے کہ اس کی ترقی کے لیے وہ خودکوشش کرتے ہیں ،حکومت کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔اگرہمارے مطالبات پرحکومت نے اردوکوروٹی روزی سے جوڑبھی دیاتوہم لوگ اردوکوصرف اسی نقطۂ نظرسے پڑھیں گے کہ ہمیں نوکری ملے اوراچھی اچھی تنخواہوں والی ملازمت ملے۔ ہمیں تواس سے خطرہ یہ ہے کہ اردوکی قرارواقعی حیثیت شایدپس منظرمیں چلی جائے۔ اس وقت پوری دنیامیں یہودی ایک ایسی قوم ہے جودیگراقوام سے سب سے آگے ہے حتیٰ کہ سپرپاورامریکہ بھی ان کے بہترین دماغوں کے سامنے بے بس ہے۔کبھی سوچا کہ وہ ترقی کے اس بلندمنارے پرکیسے پہنچ گئے ۔ان مٹھی بھریہودیوںنے اپنی حیرت انگیزعلمی لیاقت،زبردست تخلیقی صلاحیت اورغیرمعمولی فکری صلابت کی بناپرپوری دنیا کو اپنادست نگربننے پرمجبورکردیاہے ۔ہماراسوال یہ ہے کہ کیاانہوںنے یہ ترقی اپنی قومی زبان عبرانی کی وجہ سے حاصل کی ؟بلکہ عالمی زبانوں میں ان کی مہارت اورکارناموںنے انہیں یہ مقام عطاکیامگراس کے باوجودانہوںنے اپنی قومی زبان کونہیں چھوڑا۔یہ زبان ان کے درمیان صدیوں سے رائج ہے ۔ان کی مذہبی کتاب توریت حضرت موسیٰ پر عبرانی زبان میں اتری تھی ۔اس وقت سے لے اب تک یہ ان کے درمیان بولی جاتی ہے۔انہوںنے کبھی شورنہیں مچایاکہ دنیاوالے ہماری زبان سے انصاف نہیں کررہے ہیں ۔پتہ چلاکہ زبانیں حکومت کی بیساکھیوںاورریزرویشن کے سہارے نہیں بلکہ بولنے والوں کی دل چسپیوں کے سبب ابھرتی اورنموپاتی ہیں۔

اردوکارسم الخط عربی زبان سے ملتا جلتا ہے اس لیے مسلمانوں کواس سے مانوس ہونافطری ہے ۔اس لیے کم ازکم برصغیرکی حدتک توہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ زبان مشکل سے ہی مٹے گی ۔ہا ںیہ بات ضرورہے کہ کچھ عرصے کے بعدہرزبان میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آجاتی ہیں ،طریقۂ استعمال بدل جاتے ہیںاورکچھ دیگرزبانوں کے الفاظ بھی زبان کی سرحدوں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔مستقبل میں اس جہت سے تواردوزبان میں فرق پڑسکتاہے مگرکلی طورپریہ مٹائی نہیں جاسکتی، چاہے کتنی بھی کوششیں کرلی جائیں ۔یہ ایک عظیم سچائی ہے اورسچائی دب توسکتی ہے ،مٹ نہیں سکتی۔ایک ضروری بات یہ بھی یادرکھنے کی ہے کہ اردوکی بقااوراس کے تحفظ کے لیے مدارس کاکردارنہایت کلیدی ہے بلکہ اس کی ترقی میں مدارس کاہی رول ہے ۔اسے فراموش کر جانا بہت بڑی بے انصافی ہوگی ۔ مدارس کاذریعۂ تعلیم اردوہے۔ مدارس کے فارغ التحصیل اردوزبان میں ہی تقریرکرتے ہیں اورقوم کی اصلاح کرتے ہیں اوراردوہی کوکتابوں کے ذریعے پھیلاتے ہیں۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ دوسرے لوگوں نے کچھ نہیںکیا۔

Urdu Language

Urdu Language

انہوں نے بھی اپنی اپنی بساط بھرکیاہے اورکررہے ہیں مگراس بابت مدارس کی خدمات سب سے زیادہ ہیں۔اس لیے ہمارایہ کہنا بالکل بجاہے کہ جب تک مدارس زندہ ہیں اردوکوکوئی نہیں مٹاسکتا۔یونیورسٹیوںکے اردوکے شعبے ختم ہوسکتے ہیں ،اردومیڈیم اسکول بھی ختم ہوسکتے ہیں مگر مدارس جواسلام کے نمائندے ہیں،ہمیشہ باقی رہیں گے۔ انہیں کوئی ختم نہیں کرسکتااس لیے یہ قطعی اورحتمی طورپریہ سمجھ لیناچاہیے کہ اردوزبان ہمیشہ باقی رہے گی اوراس کامستقبل نہایت تاب ناک ہے۔ سچ کہا ہے کسی شاعر نے۔

اردوہے جس کانام سبھی جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں ہے

تحریر : صادق رضا مصباحی،ممبئی
موبائل نمبر:09619034199