بستیاں بسا لی ہیں دور آشنائوں نے

PIA airbus

PIA airbus

بستیاں بسا لی ہیں دور آشنائوں نے
ملک گھیر رکھے ہیں قسمت آزمائوں نے

کیوں نہ بھول جائیں وہ گرم سانس رشتوں کو
جن کو کھینچ رکھا ہو سرد آبنائوں نے

راہ تکتی آنکھیں بھی بند ہونے والی ہیں
چٹھیوں میں لکھا ہے ان کی بوڑھی مائوں نے

باپ کے جنازے کو غیر لے گئے آ کر
بہرِ مغفرت مانگی بس دعا ہوائوں نے

جن کی گردنوں میں ہوں طوق چاندی سونے کے
ان کا ساتھ چھوڑا ہے خیر کی دعائوں نے

اپنے طور بھولے ہیں مشرقی سپوتوں کو
ان کو مار رکھا ہے مغربی ادائوں نے

چار سو چھلکتے ہیں جام عیش کامی کے
توبہ توڑ رکھی ہے خوشنما گھٹائوں نے

ڈاکٹر سعادت سعید