بستی کی ایک اداس صبح

sunshine

sunshine

دھوپ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔
چار دنوں کی مسلسل بارش کیبعد اب جو دھوپ نکلی تو محلے کے بچے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ گھر کی عورتوں نے موقع کو غنیمت جانا اور جلدی جلدی الگنی پر کپڑے پسارنے لگیں۔

جب گھروں کے آنگن میں جگہ نہیں بچی تو باہر محلے کے تنگ راستے میں ایک مکان سے دوسرے مکان پر پھیلے بجلی کے پلاسٹک پائپ، کیبل ٹی وی کے تار اور ٹیلیفون کے تاروں پر لگھی(لمبی لکڑی) سے کپڑے پسارنے لگیں۔

چار دنوں کی مسلسل بارش نے مجھے بھی قیدی بنا دیا تھا۔ صبح کے معمولات میں فرق آ گیا تھا۔

آج میں نے بازار کا تھیلا لیا اور ملنے جلنے والوں سے سلام دعا کرتا حسب عادت پہلے الیکٹرک بکس کے پاس جاکر میٹر ریڈنگ کی کہ ان چار دنوں میں کتنی بجلی صرف ہوئی، گوشت کی دکان پر گوشت کی قیمت دے ہی رہا تھا کہ اور ٹیلفون کے وائر پر بیٹھے کوے نے گل میاں پر بیٹ کر دیا۔ انہوں نے کوے کو گالی دی، تب ہی چھوٹو قصائی نے کہا، سر پر بیٹ کرتا تو آپ بادشاہ بن جاتے۔ گل میاں نے اسطرح مذاق بننے پر چھوٹو کو ایک سڑی سے گالی دی۔ میں آہستہ سے کھسک آیا۔

Old Man heating milk

Old Man heating milk

مودی دکان جاکر سامان لکھوائے، دودھ والے کے پاس جاکر دودھ اور دہی کے پیسے دیے اور مٹھائی والے سے جلیبی خریدی۔ وہاں سے واپس ہوتے ہوئے دودھ سے بھرے ٹفن کو تھاما، مودی کی دکان سے سامان سے بھرا تھیلا لیا اور پاؤ روٹی والے کے یہاں سے پوتے کیلئے کوارٹر روٹی، دودھ کے دو پیکٹ لیے اور گھر آکر رین واٹر پائپ میں اٹکے تین اخبارات نکالے اور کمرے میں آ گیا۔ بازار کا تھیلا رکھ کر اخبار کی سرخیاں پڑھنے لگا۔ اتنے میں باہر شوروغل کی آوازیں آنے لگیں۔ آواز کا زور بڑھتا گیا۔

” کیا ہوا جگدیش، میں نے برآمدے سے مہندر داس کے بیٹے کو آواز دی۔
ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کاکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید قصائی بستی کیطرف کچھ ہوا ہے۔ شاید دولت لوگوں سے جھگڑا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مرا بھی ہے۔

یعنی فساد ہو گیا ہے مگر ایسا کیسے ہوا ابھی کل ہی تو غیر منظم لفاف اور چمڑے کے کاریگر، جن کا تعلق دونوں فرقوں سے ہے اپنے پی ایف کا فارم انجمن اسکول میں سرجوڑ کر بھر رہے تھے۔ کچھ لوگوں کو انکا پاس بک بھی مل گیا تھا۔ سب بہت خوش تھے۔ پھر یہ کیا ہو گیا؟

نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور ہی بات ہے، میں خود ہی دیکھتا ہوں۔
کہاں جا رہے ہیں، پتہ نہیں کیا ہوا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں بھیڑ بھاڑ میں جا رہے ہیں؟َ بیوی نے کہا۔
جانتی تو ہو لوگ بات کا پتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ ہوتی ہے تکرار اور اسے فساد کہہ دیتے ہیں اور پھر واقعی فساد ہو جاتا ہے۔ میں بھی تو دیکھوں آخر بات کیا ہے؟ قصائی بستی پہنچا تو معلوم ہوا، یہاں ہریجن کوارٹر میں شاید کچھ ہوا ہے۔ کیا ہوا ہے معلوم نہیں۔ ہاں دو بچوں کے مرنے کی افواہ پھیلی ہوئی ہے۔

افواہ ہے۔ یعنی صحیح علم آپ لوگوں کو نہیں؟
چچا معلوم نہیں کیا ہوا۔ پولیس آ گئی ہے۔ کونسلر بھی ہیں۔ ادھر جانے سے ڈر لگتا ہے۔ پولیس نے فسادی مان کر پکڑ لیا تو ہمارے بال بچوں کا کیا ہو گا؟
میں نے اس نوجوان کے چہرے کیطرف دیکھا۔ چہرے کی معصومیت پر خوف کی تہہ جم رہی تھی۔

میں نے بھیڑ سے معذرت چاہتے ہوئے آہستہ آہستہ ہریجن کوارٹر کیطرف قدم بڑھائے۔ پولیس لوگوں کو روک رہی تھی۔ کوارٹرز کے مین گیٹ کے اندر داخل ہونا منع تھا۔ اسی درمیان کونسلر نے مجھے دیکھ لیا۔
آئیے ماسٹر صاحب آئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس والوں نے مجھے جانے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ابھی تک کچھ سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ اتنا ضرور ہے تین چھوٹے لڑکے یہی کوئی سات آٹھ سال کے ہریجن کوارٹر سے لگے اسکول پر مرے پڑے ہیں۔ پولیس اور فائر بریگیڈ والے دیکھ رہے ہیں۔
فائر بریگیڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا آگ لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی نے گھبراہٹ میں فائر بریگیڈ کو بھی اطلاع دیدی تھی۔

police

police

ہم لوگ اسی طرح بہت دیر کھڑے رہے۔۔۔ بھیڑ کی آواز کو بھی سانپ سونگھ گیا تھا۔ انکی نظریں کبھی اسکول کی چھت کیطرف اٹھتیں اور کبھی ہریجن کوارٹر کے مین گیٹ کیطرف۔

اسی درمیان ایم ایل اے بھی آ گئے۔ کیا ہوا دیدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا ہوا ماسٹر صاحب؟ ابھی انکی بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ کوارٹرز کے مین گیٹ سے پولیس والے اور فائر بریگیڈ کے کچھ لوگ نکلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولیس والوں نے ایکساتھ ایم ایل اے کو سیلوٹ کیا اور کہا! سر! کیا آپ اندر چلیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اندر بہت گرمی، گندگی اور گھٹن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راستے غلاظت سے بھرے ہیں۔

جو بھی ہو جانا تو پڑیگا۔ آخر بات کیا ہےَ؟ اسطرح لڑکے مر جائینگے۔ ایسا کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا حل نکالنا پڑیگا۔
آپ لوگ بھی آئیے۔ انہوں نے مجھ سے اور کونسلر سے کہا۔
کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ایک ذرا سی غلطی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ذرا سے بے احتیاطی نے تین بچوں کی جان لے لی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بچے کے ہاتھ میں ساڑی کا دامن ہے، ایک کے ہاتھ میں ٹوٹی کمان والی پتنگ اور ایک الٹا پڑا ہے۔۔۔۔ فائر بریگیڈ کے آفیسر انچارج نے بتایا۔

یہ کیسے ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہریجن کوارٹرز کے اوپر ہائی وولٹیج کا ننگا تار ہے جس سے ویپر لیمپ کا کنکشن ہے۔ نیچے کوارٹر سے لکھی کے ذریعہ ساڑیوں کو سوکھنے کیلئے ڈالا گیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اسکول کی عمارت کے مین گیٹ پر تو تالا ہے، یہ بچے اوپر کیسے گئے؟
ایم ایل اے اور آفیسر انچارج کے درمیان گفتگو چل رہی تھی۔

میں شاید دس برس پہلے سماجی جاگرن کمیٹی کیطرف سے کوارٹرز کے طویل وعریض احاطے میں گیا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ان گنت کمرے اور آنے جانے کیلئے کہیں دوفٹ اور کہیں تین فٹ کا گلیارہ نما راستے مگر لوگوں کی اتنی بھیڑ نہیں تھی۔ آج جب اندر داخل ہوا تو دلتوں کے کوارٹرز والی الگ تھلگ بستی کو بکری چھڑی کیطرح آدمیوں سے ٹھسا ٹھس بھرا پایا۔ جیسے آدمی نہ ہوں، بھیڑ بکری ہی ہوں۔

saree

saree

ابھی میں پچھلے دنوں کو یاد کر ہی رہا تھا کہ کانوں نے ٹوٹتے گفتگو کے سلسلے کو جوڑ دیا۔ عورتیں ہمیشہ اسی طرح لکھی کے ذریعہ اسکول کے کنارے گلیارے سے بھیگے کپڑے پسارتی ہیں۔ کئی روز کی بارش کیبعد عورتوں کے کپڑے پسارے بچوں نے پتنگ بازی شروع کی۔ ایک پتنگ کہیں سے کٹ کر آئی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گروہ کی شکل میں لڑکے اندر آئے۔ ان لوگوں کے منع کرنے کے باوجود ان میں سے تین لڑکے اسطرف سے کسی طرح اسکول کی عمارت پر چڑھ گئے۔

اسکے بعد کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ بس تینوں لڑکوں کی عجیب وغریب دردناک چیخیں ابھریں اور ڈوبتی چلی گئیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوارٹرز کے کئیر ٹیکر نے کہا کہ مسلسل برسات کیوجہ سے جگہ جگہ چھت پر پانی جمع تھا۔ تینوں نے پتنگ کو نکالنے کی کوشش کی ہو گی۔ شاید کوئی ترکیب لگا کر ساڑیوں تک وہ لوگ پہنچ گئے اور پھر بھیگی چھت، بھگی ساڑھی اور ننگے ہائی وولٹیج کے الیکٹرک تار نے انکے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائر بریگیڈ کے آفیسر نے کہا۔

میری آنکھوں کے سامنے ایک کیبعد ایک کے کئی منظر گزر گئے۔ اس نوجوان کا چہرہ بھی سامنے آ گیا جس کی معصومیت پر خوف اور ڈر کی پرچھائیاں تھیں۔ ابھی تک لاشیں اوپر سے اتاری نہیں گئی ہیں۔

کوئی نہیں جانتا یہ بچے کس کے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہریجن کوارٹر کے سامنے مسلمانوں اور ہندوؤں کی ملی جلی آبادی والی قصائی بستی اور دلت بستی ہے۔

یہ بچے کس کے ہیں۔

تحریر: فیروز عابد