بہار کی ہوا

Ship in a storm

Ship in a storm

آج سے بہت عرصہ پہلے یونان کے لوگ سورج کو ایک بہت بڑا بادشاہ خیال کرتے تھے۔ اسطرح ان کا خیال تھا کہ تمام ہوائیں ایک بادشاہ کے ماتحت ہیں جسے وہ ہواؤں کا بات کہا کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک نیک دل اور بہادر یونانی شہزادہ سات سمندر پار اپنے دشمنوں سے لڑنے گیا۔ دشمن شکست کھا کر بھاگا۔ شہزادہ خوش خوش اپنے ساتھیوں کیساتھ جہاز میں سوار اپنے ملک کو واپس آ رہا تھا کہ اچانک سمندر میں طوفان آ گیا اور جہاز راستے سے بھٹک کر کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
شہزادہ اور اسکے ساتھیوں نے راستہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ راستہ نہ ملا اور انکا جہاز سمندر کی موجوں کے تھپیڑے کھاتا اس جزیرے میں پہنچ گیا
جہاں ہواؤں کا باپ رہتا تھا۔

ہوائوں کا بادشاہ شہزادے کی بہادری کیوجہ سے اس پر بے حد مہربان تھا۔ چنانچہ وہ شہزادے اور اسکے ہمراہیوں کے ساتھ بہت ہی مہربانی سے پیش آیا۔ شہزادے نے اپنی مصیبت کا حال سنیا۔
سمندر میں طوفان آ جانے سے ہم لوگ راستہ بھول گئے ہیں اگر آپ ہمیں اپنے ملک پہنچا دیں تو ساری عمر آپ کا احسان نہیں بھولیں گے۔
ہواؤں کے باپ نے سب ہواؤں کو بلایا اور ان میں سے ایک ہوا کو چھوڑ کر جس کا نام بہار کی ہوا تھا اور جو یونانی شہزادے کے ملک میں پھول کھلانے جا رہی تھی باقی سب کو چمڑے کے ایک بہت بڑے صندوق میں بند کر دیا۔

Leather Storage Box

Leather Storage Box

اس صندوق کو رسیوں سے خوب جکڑ دیا گیا تاکہ ڈھکنا کھلنے نہ پائے۔ تب اس شہزادے سے کہا۔ جب تم اپنے وطن پہنچ جاؤ تو ان ہواؤں کو آزاد کر دینا لیکن اگر راستے میں انہیں چھوڑ دیا تو اپنے ملک نہ پہنچ سکو گے۔
شہزادے نے اس صندوق کو اپنے جہاز کے مستول سے کس کر باندھ دیا اور پھر جہاز کے بادبان کھول دیے۔ بہار کی ہوا دھیرے دھیرے انہیں انکے ملک کیطرف لے چلی۔

اب سنئے شہزادے کے ساتھیوں کو ہواؤں کے صندوق کے بند ہونے کا کچھ حال معلوم نہ تھا۔ جب شہزادے نے ان سے ذکر کیا تو انہیں یقین نہ آیا۔ صندوق کو دیکھ کر فوراً انکے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہو نہ ہو ہواؤں کے بادشاہ نے شہزادے کو بہت سی دولت اس صندوق میں بند کر دی ہے جس میں سے شہزادہ ہمیں حصہ نہیں دینا چاہتا۔ اس لیے یہ قصہ گھڑ کر سنا دیا ہے۔
چنانچہ وہ سب دل ہی دل میں شہزادے سے بے حد ناراض ہو گئے اور آپس میں کہنے لگے۔
یہ تو انصاف سے دور ہے کہ شہزادہ ساری کی ساری دولت خود ہی سمیٹ لے اور ہمیں پھوٹی کوڑی بھی نہ دے۔ جب ہم شہزادے کے دکھ درد کے شریک ہیں اور اسکیلئے جان تک کی پرواہ نہیں کرتے تو اس دولت میں ہمارا بھی حصہ ہونا چاہیے۔
ادھر شہزادہ اسی ڈر سے کہ کہیں کوئی شخص غلطی سے صندوق نہ کھول بیٹھے دن رات جاگتا اور جہاز کے عرشے پر پہرا دیتا رہا۔ اس بات سے اسکے ساتھیوں کا شبہ اور بھی بڑھ گیا کہ سچ مچ صندوق ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ شہزادہ پورے نو دن اور نو راتیں جاگتا رہا۔ دسویں دن صبح جب وہ جہاز کے تختہ پر کھڑا تھا تو اسے دور دھواں اٹھتا نظر آیا۔

ship

ship

یہ دیکھ کر شہزادے کی خوشی کی حد نہ رہی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنے ساتھیوں کو بلا کر یہ خوشخبری سنائی ہم وطن کے قریب پہنچ گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں اپنے بیوی بچوں سے ملنے والے ہیں۔ شہزادے کی آنکھیں نیند سے سرخ ہو رہی تھیں اور آپ سے آپ بند ہوئی جاتی تھیں۔ دس دن اسکی پلک سے پلک نہ لگی تھی۔ یہ دیکھ کر کہ اب کوئی خطرہ نہیں رہا وہ اپنے بستر پر ذرا دیر کمر سیدھو کرنے کو لیٹ گیا۔ اسکا لیٹنا تھا کہ آنکھیں آپ سے آپ بند ہو گئیں اور پل بھر میں وہ بے خبر سو گیا۔
شہزادے کے ساتھی اس موقع کر فکر میں تھے شہزادے کو سوتا دیکھ کر جھٹ صندوق کے رسے کاٹ ڈالے اور ڈھکنا اٹھا دیا۔
صندوق کا ڈھکنا کھلنا تھا کہ سب ہوائیں سنسناتی ہوئی صندوق سے نکل پڑیں اور اس قیامت کا طوفان بپا کیا کہ خدا کی پناہ۔ ان زبردست ہواؤں کے سامنے بہار کی ہوا کی کچھ پیش نہ گئی اور انکا جہاز جدھر سے آیا تھا پھر اسی طرف تیزی سے
چلنے لگا۔

تحریر: غلام عباس