بے زبان جانور

Mirza Arif

Mirza Arif

میرے کچھ دوست مجھ سے ملنے کیلئے لاہور سے آئے ان کو بہاولپو ر دیکھنے کا بہت شوق تھا میں نے اپنے دوستوں کو بہاولپور شہر کی سیر کرائی جانے سے ایک دن پہلے انہوں نے مجھ سے کہا بھائی ہم بہاولپور کا چڑیا گھر دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں چڑیا گھر لے چلو میں نے بہت ٹال مٹول کی مگر وہ نا مانے دوپہر کاوقت تھا ہم تیار ہو کر چڑیا گھر آگئے اسٹینڈ پر اپنی موٹر سائیکلیں کھڑی کیںاور میں ٹکٹ گھر سے ٹکٹ لینے کیلئے چلا گیا میں ٹکٹ گھر سے چا ر ٹکٹیں جب لیں تو موجودہ قیمت سے دس روپے زیادہ ٹکٹ وصول کی گئی میں نے کہا بھائی قیمت تو زیادہ وصول کررہے ہو ٹکٹ والے نے کہا کہ چڑیا گھر دیکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر برداشت کر و میرے ساتھ مہما ن تھے میں چپ ہوگیا۔

مین گیٹ سے جب ہم اندر داخل ہوئے تو میرے دوستوں نے کہا یہاںتو صفائی نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آرہی راستے کتنے گندے ہیں میں چپ رہا گرمی کی وجہ سے پیا س بھی بہت زیادہ لگ رہی تھی ہم سیدھا کنٹین کی طرف چل پڑے میں نے کنٹین سے چار بوتلیں اور چار چپس کے پیکٹ لئے بوتل پینے کے بعد میں نے کنٹین والے سے بل پوچھا تو اس نے مجھ سے دو سو مانگ لیئے میں نے کہا کہ بھائی اس کا بل تو ایک سو بیس روپے بنتا ہے نہیںجی چڑیا گھر میںیہ ریٹ نہیں اب مہمانوں کے سامنے لڑنا اچھا بھی نہیں لگتا تھا۔

میں نے کنٹین والے کو دو سوروپے دیئے اور باہر آگیا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ہم سب سے پہلے بندرو ں کے پنجرے کے پا س آگئے بند ر ہمیں دیکھ کر گھورنے لگے جیسے وہ مجھے جانتے ہوں بندروں کے پنجروں میں نہ ہی کھانے کی کوئی چیز اور نہ ہی پانی نظر آرہا تھا اتنی گرمی میں ان کے پانی کے برتن خالی پڑتے تھے ہم تھوڑا سے اور آگے گئے تو انہو ں نے مجھے کہا کہ عجائب گھر دیکھنا ہے میں ان کو عجائب گھر لے گیا ایک بوسیدہ سی بلڈنگ جسے دیکھ کر ڈر سا لگتا تھا عمارت کے اندر جو پینٹ کیا گیا تھا ایسا لگتا تھا۔

old house

old house

جیسے بہت پرانا پینٹ کیا ہوا ہو لگتا تھا اس بلڈنگ پر کسی افسر کی نظرنہیں پڑی عجائب گھر میں بہت ساری نایاب چیزیں خراب ہورہی تھیں ہم دیکھ کر حیران رہ گئے ان نایاب چیزوں پر جیسے کوئی توجہ نہ دی جارہی ہو جب ہم بلڈنگ سے باہر آئے تو ہم ہرنوں کے پاس چلے گئے کمزور کمزور سے ہرن نا تو چھلانگ لگا سکتے تھے اور نہ ہی بھاگ سکتے تھے ایک عرصے سے چڑیا گھر میں رہنے والے ہرن ایک خوف اور ڈر سے دوربھاگنے لگے میرے مہمان پوچھنے لگے کیا یہ ہے آپ کے بہاولپور کا چڑیا گھر میں نے اس سے کہا کہ میں نے پہلے ہی آپ سے کہا تھا کہ نہ چلو لیکن آپ نہیں مانے ہماری نظر پاس ہی ایک تلاب پر پڑی جس میں کچھ بطخیںپھر رہی تھیں۔

ان بطخوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کوئی نئی نسل چڑیا گھر میں آگئی ہے نہ تو انکا رنگ سفید تھا نہ ہی کالا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا رنگ ہی بدل گیا تھا ان کو دیکھنے کے بعد ہم آہستہ آہستہ آگے چل پڑے جب ہم ببر شیر کے پنجڑے کے پنجرے کے پاس گئے ایک دم اپنی جیب سے رومال نکال کراپنی اپنی ناک پر رکھ لی بدبو اتنی زیادہ تھی کہ مت پوچھو شیرو ںکی نظر جب مجھ پر پڑی تو وہ ایک دم زور زور سے چیخنے لگے جیسے وہ کہہ رہے ہوں تمہیں ہم سے زیادہ بدبو آتی ہے اپنی ناک پر رومال کیوں رکھ لیا تم نے کیا کرلیا۔

lion

lion

ان افسروں کا الٹا ہمیں خراب کیا جب سے ہم نے تمہیں چڑیا گھر کے بارے میں بتایا الٹا عملہ ہم سے ناراض ہوگیا ہے اب ہم پہ پہلے سے بھی زیادہ سختی کی جارہی ہے اب ہم سب شیروں کیلئے علیحدہ علیحدہ ہڈیاں رکھ دی گئی ہیں ہم ہما ری توبہ ہم کسی کیساتھ بھی بات نہیں کرینگے اتنے میں دوستوں کی آواز آئی ہم بہت تھک گئے ہیںچلنے کو دل کر رہا ہے میں دل ہی دل میں بہت شرمندہ تھا اور سوچ رہا تھا واقعی میں ان زبانوںکیلئے کچھ نہیں کرسکا یہ بے رحم افسر ان پر ظلم کررہے ہیں ۔واقعی چڑیا گھر میں بیٹھنے والے افسر ظالم بن گئے ہیں ۔تحریر: مرزا عارف رشید