تری دنیا میں یا رب زیست کے سامان جلتے ہیں

Ya Rab teri dunya mein

Ya Rab teri dunya mein

تری دنیا میں یا رب زیست کے سامان جلتے ہیں
فریب زندگی کی آگ میں انسان جلتے ہیں

دلوں میں عظمت توحید کے دیپک فسردہ ہیں
جبینوں پر ریا و کبر کی فرمان جلتے ہیں

ہوس کی باریابی ہے خودمندوں کی محفل میں
رو پہلی نکلیوں کے اوٹ میں ایمان جلتے ہیں

حوادث رقص فرما ہیں قیامت مسکراتی ہے
سنا ہے ناخدا کے نام سے طوفان جلتے ہیں

شگوفے جھولتے ہیں اس چمن میِ بھوک کے جھولے
بہاروں میں نشیمن تو بہر عنوان جلتے ہیں

کہیں پازیب کی چھن چھن میں مجبوری تڑپتی ہے
ریا دل توڑ دیتی ہے سنہرے دان جلتے ہیں

مٹائو جشن مے نوشی بکھیرو زلفِ مے خانہ
عبادت سے تو ساغر دہر کے شیطان جلتے ہیں

ساغر صدیقی