تنہائی

full moon

full moon

پھر کوئی آیا دلِ زار! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ رک تک کے ہر اک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیے قدموں کے سُراغ
گل کرو شمعیں، بڑھا دو مَے و مینا وایاغ
اپنے بے کواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض