تیسرا دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 10 ذی الحجہ

توپ کی آواز کیبعد فجر کی نماز پڑھیں اس سے پہلے جائز نہیں پھر مشعرالحرام میں یعنی خاص پہاڑی پر اور یہ نہ ہو سکے تو اسکے دامن میں اور یہ بھی نہ ہو سکے تو وادی محسرکہ جہاں اصحاب فیل پر عذات نازل ہوا تھا، اسکے علاوہ جہاں جگہ ملے وقوف کریں، یعنی ٹھہر کر لبیک، دعا اور درود شریف پڑھنے میں لگے رہیں۔

return to mina

return to mina

منیٰ کی طرف واپسی:
جب سورج نکلنے میں دو رکعت پڑھنے کا وقت باقی رہ جائے تو منیٰ کیطرف روانہ ہو جائیں اگر سورج نکلنے کیبعد روانہ ہوں تو برا ہے مگر دم واجب نہیں۔

جب منیٰ دکھائی دے تو وہی دعا پڑھیں جو مکہ شریف سے آتے ہوئے منیٰ دیکھ کر پڑھی تھی۔

” اللھم ھذہ منی فامنن علی بما مننت بہ علی اولیائک ہ ”

منیٰ پہنچ کر پہلے کنکری مارنی ہے کنکری مارنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مناسک حج ادا کرنے کیلئے آئے تو جمرہ کبریٰ کے پاس شیطان سامنے آیا۔

آپ نے اسے سات کنکری ماری یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا پھر جمرہ وسطیٰ کے پاس سامنے آیا پھر آپ نے ساتھ کنکری ماری یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا اور پھر تیسرے جمرہ کے پاس آیا تو اسے سات کنکری ماری یہاں تک کہ زمین میں دھنس گیا۔ ( ابن خزیمہ و حاکم )

ان تینوں جگہوں پر کھمبے بنا دیے گئے ہیں اور آجکل انکے اوپر پل کیطرح بہت وسیع چھت بن گئی ہے جس سے اوپر نیچے دونوں جگہ سے کنکری مارنے میں بڑی سہولت ہو گئی ہے۔

مکہ شریف کیطرف سے آتے ہوئے جو پہلے پڑتا ہے وہ جمرہ کبریٰ ہے۔ جسکو آجکل عام طور پر بڑا شیطان کہا جاتا ہے۔ پھر جو بیچ میں ہے وہ جمرہ وسطیٰ اور جو مسجد خیف کیطرف ہے وہ جمرہ اولیٰ ہے۔

کنکری مارنے کا وقت:
10 ذی الحجہ کو صرف بڑے شیطان کو کنکری مارنی ہے چھوٹے اور بیچ کے شیطانوں کو کنکری نہیں مارنی ہے۔ اسکا وقت دسویں کی صبح سے گیارہویں کی صبح صادق تک ہے لیکن سورج نکلنے کیبعد سے زوال تک کنکری مارنا سنت ہے۔

زوال کیبعد سے، سورج ڈوبنے تک مارنا ناجائز ہے اور سورج ڈوبنے کیبعد سے صبح صادق تک مکروہ ہے لیکن کمزور اور بیمار لوگ، عورتیں ہوں یا مرد اگر دن میں کنکری نہ مار سکیں تو رات میں ماریں اگر بھیڑ یا تھکاوٹ وغیرہ کیوجہ سے کسی تندرست مرد یا عورت کیطرف سے کوئی وکیل یا قائم مقام بن کر کنکری مارے تو اسکیطرف سے ادا نہ ہو گی اور ایسا کرنے سے کفارہ کی قربانی لازم آئیگی۔

ہاں اگر اتنا بیمار ہو کہ جمرہ تک سواری پر بھی نہ جا سکتا ہو وہ دوسرے کو کنکری مارنے کا وکیل بنائے تو اس صورت میں کفارہ لازم نہیں آئیگا۔

انتباہ:
جو لوگ رات میں کنکری ماریں گے انکی طرف سے دوسرے دن قربانی ہو گی، پھر حجامت کیبعد انکا احرام کھلے گا تو اگر قارن یا متمتع نے کنکری مارنے سے پہلے قربانی کی تو دم لازم ہو گا ایک قربانی کے سبب اور ایک حجامت کے سبب۔

کنکری مارنے کا طریقہ:
کنکری مارنے کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ جمرہ سے تقریبا پانچ ہاتھ کے فاصلہ پر اسطرح کھڑے ہوں کہ کعبہ شریف بائیں ہاتھ کیطرف ہو اور منیٰ دہنی طرف اور منہ جمرہ کیطرف۔

stone throwing to jamrah

stone throwing to jamrah

ایک کنکری انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑیں اور خوب اچھی طرح ہاتھ اٹھا کر بغل کی رنگت ظاہر ہو، یہ دعا پڑھ کر ماریں۔
” بسم اللہ اللہ اکبر زغما للشیطان رضا للرحمٰن ہ اللھم اجعلہ حجا مبرورا و سعیا مشکورا ہ وذنبا مغفورا ہ”
ترجمہ: اللہ کے نام سے ، اللہ بہت بڑا، شیطان کو ذلیل کرنے کیلئے اور اللہ کی رضا کیلئے۔ اے اللہ! اس کو حج مبرور کر۔ سعی مشکور کر اور گناہ بخش دے۔

اسطرح سات کنکری ایک ایک کر کے ماریں۔ ساتوں کو ایکساتھ ہر گز نہ ماریں اور کنکریاں جمرہ تک پہنچیں تو بہتر ہے ورنہ تین ہاتھ کی دوری پر گریں جو کنکری اس سے زیادہ دور گریگی اسکی گنتی نہ ہو گی۔

اگر بھیڑ کیوجہ سے اوپر کے بتائے ہوئے مستحب طریقہ پر کنکری نہ مار سکیں تو جسطرح بھی کھڑے ہو کر آسانی سے مار سکیں مار دیں اور پہلی کنکری سے لبیک بند کر دیں۔ پھر جب سات پوری ہو جائیں تو وہاں نہ ٹھہریں۔ ذکر و دعا کرتے ہوئے فورا پلٹ آئیں۔ ( انورالبشارتہ، بہار شریعت)

قربانی اور حجامت:
یہاں بقر عید کی نماز نہیں پڑھی جائیگی۔ کنکری مارنے سے فارغ ہو کر حج کے شکرانہ کی قربانی کی جائیگی۔ یہ قربانی ہر قارن اور متمتع مرد و عورت پر واجب ہے۔ اگرچہ غریب ہوں اور مفرد کیلئے مستحب ہے۔

یعنی اگر کرے تو بہت زیادہ ثواب ہے اور نہ کرے تو کوئی گرفت نہیں اگرچہ غنی ہو۔ چھوٹے بڑے جانور کی عمر و اعضاء میں وہی شرطیں ہیں جو بقر عید کی قربانی میں ہیں اور حج کی قربانی میں بھی اونٹ اور گائے میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں۔

قارن اور متمتع اگر محتاج محض ہوں یعنی انکے پاس اتنا نقد نہیں کہ وہ جانور خرید سکیں اور نہ ایسا سامان ہے کہ اسے بیچ کر لا سکیں تو ان پر قربانی کے بدلے دس روزے واجب ہونگے۔

تین تو حج کے مہینوں میں یعنی یکم شوال سے نویں ذوالحجہ تک حج کا احرام باندھنے کیبعد جب چاہیں رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ 9,8,7 ذی الحجہ کو رکھیں اور باقی سات روزے 13ویں ذی الحجہ کیبعد جب چاہیں رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ گھر پہنچ کر رکھیں۔ (بہار شریعت)

قارن یا متمتع اگر مقیم کے حکم میں ہے اور صاحب نصاب ہے تو پر دو قربانی واجب ہے۔ ایک حج کے شکرانہ کی اور دوسری بقر عید کی اور صاحب نصاب منفرد اگر مقیم کے حکم میں ہے تو اس پر بھی بقر عید کی ایک قربانی واجب ہے لیکن یہ لوگ اگر بقر عید کی قربانی کا انتظام اپنے وطن میں کریں تو حرج نہیں مگر حج کے شکرانہ کی قربانی اور کفارہ کی قربانی صرف منیٰ اور پورے حدوود حرم میں ہو سکتی ہے۔ اسکے باہر وطن وغیرہ میں نہیں ہو سکتی۔

قربانی کیبعد قبلہ رخ بیٹھ کر حجامت بنوائیں، سر منڈوائیں یا بال کتروائیں اور عورتوں کو پورے سر کا بال انگلی کے پور کی مقدار برابر کترانا مستحب ہے۔ ( درمختار)

اور چوتھائی سر کا بال انگلی کے پور کی مقدار برابر کترانا واجب ہے۔ ( ردالمختار)

مگر کسی نامحرم کے ہاتھ سے ہرگز نہ کتروائیں کہ حرام ہے اور جس کے سر پر بال نہ ہوں وہ استرا پھروائے اور سر منڈانے یا بال کتروانے سے پہلے ناخن نہ تراشیں اور نہ خط بنوائیں کہ دم لازم آئیگا یعنی قربانی کا کفارہ دینا پڑیگا۔

حجامت بنواتے وقت یہ دعا پڑھتے رہیں۔
” اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد ”

قارن اور متمتع پر قربانی کیبعد حجامت ہے یعنی اگر قربانی سے پہلے حجامت بنوائے گا تو دم لازم آئیگا۔ مرد لوگ اگر بال کتروائیں تو سر میں جتنے بال ہیں اس میں سے چوتھائی کا انگلی کے پور کی مقدار برابر برابر کتروانا واجب ہے اگر چوتھائی سے کم کتروایا تو دم لازم آئیگا۔

کتروانے کی صورت میں ایک پور سے زیادہ کتروائیں اس لیے کہ بال چھوٹے بڑے ہوتے ہیں ممکن ہے چوتھائی بالوں میں سے ایک پور نہ ترشیں اور سر منڈانے یا بال کتروانے کا وقت ” ایام نحر ” ہے یعنی اگر بارہویں ذی الحجہ تک حجامت نہ بنوائی تو قربانی کا کفارہ لازم آئیگا۔ ( بہار شریعت)

حجامت کیبعد احرام کی ساری پابندیاں ختم ہو گئیں۔ اب نہا دھو کر سلے ہوئے کپڑے پہن سکتے ہیں لیکن طواف و زیارت جو حج کا فرض ہے اسکے پہلے بیوی سے صحبت کرنا، اسے شہوت کیساتھ چھونا یا بوسہ لینا حلال نہیں ہوا۔ ( در مختار، ردالمختار )

طواف زیارت:
قربانی اور حجامت سے فارغ ہونے کیبعد افضل یہ ہے کہ آج ہی دسویں ذوالحجہ کو مکہ شریف پہنچ کر طواف زیارت کریں اور رات گزارنے کے لیے منیٰ واپس آ جائیں۔

قارن و مفرد طواف قدوم میں اور متمتع احرام حج کیبعد کسی نفل طواف میں اگر طواف زیارت کی سعی کر چکے ہوں تو اس طواف کیبعد سعی نہ کریں اور اگر پہلے سعی نہ کی ہو اور احرام کی چادریں بدن پر ہوں تو اضطباع و رمل کیساتھ طواف کیبعد سعی کریں اور اگر احرام کی چادرین بدن پر نہ ہوں تو صرف سعی کریں۔ اس صورت میں طواف کے اندر رمل و اضطباع نہیں اور سر منڈانے یا کتروانے کیبعد طواف زیارت کی سعی کی ہو تو پھر دوبارہ حجامت کی ضرورت نہیں۔

اگر دسویں کو طواف زیارت کا موقع نہ مل سکے تو بارہویں کی مغرب سے پہلے تک کر سکتے ہیں لیکن دسویں کو نہ کر سکنے کی صورت میں گیارہویں کو یہ طواف کر لینا بہتر ہے۔

بعض لوگ ناتجربہ کاری کی بنا پر آنے جانے کی پریشانی سے بچنے کے لیے بارہویں کی شام کو اس کو اس طواف کا پروگرام بناتے ہیں لیکن جب بارہویں کو زوال کیبعد کنکری مار کر موٹروں پر چلتے ہیں تو بے انتہا ہجوم کے سبب مغرب سے پہلے نہیں پہنچ پاتے اسطرح ان پر دم لازم آ جاتا ہے اور گنہگار بھی ہوتے ہیں۔

ہاں اگر زوال کیبعد فورا کنکری مار کر پیدل چل پڑیں تو مغرب سے پہلے طواف زیارت کر سکتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی اچانک بیماری وغیرہ کے سبب وقت پر نہ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ دسویں یا گیارہویں کو طواف زیارت سے فارغ ہو جائیں یا گیارہویں کو بہر صورت واپس آ کر رات منیٰ میں ہی گزاریں۔

طواف زیارت کیبعد بیوی حلال ہو گئی اور حج پورا ہو گیا کہ اس کا دوسرا فرض یہ طواف تھا۔

عورتوں کیلئے بھی یہ طواف زیارت فرض ہے لیکن حیض یا نفاس کیوجہ سے اگر بارہویں تک نہ کر سکیں تو ان پر کوئی دم یا کفارہ لازم نہیں آئیگا۔ وہ جب بھی پاک ہوں طواف زیارت کر لیں۔ ہاں اگر حیض و نفاس کے علاوہ کسی دوسرے عذر بیماری وغیرہ کیوجہ سے بارہویں کے غروب آفتاب کیبعد طواف زیارت کرینگے تو مردوں کیطرح ان پر بھی دم لازم آئیگا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: مفتی محمد جلال الدین احمد امجدی