جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا

apples

apples

جب بھی کسی شجر سے ثمر ٹوٹ کر گرا
لوگوں کا اک ہجوم ادھر ٹوٹ کر گرا

ایسی شدید جنگ ہوئی اپنے آپ سے
قدموں پہ آ کے اپنا ہی سر ٹوٹ کر گرا

ہاتھوں کی لرزشوں سے مجھے اس طرح لگا
جیسے مری دعا سے اثر ٹوٹ کر گرا

اتنی داستان ہے میرے زوال کی
میں اُڑ رہا تھا جس سے وہ پر ٹوٹ کر گرا

وہ چاند رات دور چمکتا رہا نوید
بانہوں میں آ کے وقت سحر ٹوٹ کر گرا

اقبال نوید