جرم انکار کی سزا ہی دے
Posted on May 29, 2012
By Adeel Webmaster
ناصر کاظمی
khana kaba
جرم انکار کی سزا ہی دے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے
شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب
جو ترا ناز کم نگاہی دے
تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری
مجھ کو اک اشک صبحگاہی دے
تو نے بنجر زمیں کو پھول دیے
مجھ کو اک زخم دل کثاہی دے
بستیوں کو دیے ہیں تو نے چراغ
دشت دل کو بھی کوئی راہی دے
عمر بھر کی نوا گری کا صلہ
اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے
زرد رو ہیں ورق خیالوں کے
اے شبِ ہجر کچھ سیاہی دے
گر مجال سخن نہیں ناصر
لب خاموش سے کواہی دے
ناصر کاظمی