جمہوریت کی گاڑی منزل کی طرف گامزن

Democracy Pakistan

Democracy Pakistan

جرمنی(انجم بلوچستانی) برلن بیورو کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی،جرمنی کے سینئیر کارکن و رہنما قیصر ملک نے اسلام آباد میں دئے جانے والے دھرنے کے حوالے سے ملکی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، اپنا انٹر نیشنل کی معرفت، ان خیالات کا اظہار کیا ہے:
جج بحالی لانگ مارچ ، سونامی و سوموٹو ، دھماکے،خود کش حملے، حج اسکینڈل ، میمو اسکینڈل ، مہران بیس ،اسامہ بیس اور صلالہ چوکی پر حملہ، کبھی توہین عدالت پر وزیر اعظم کی چھٹی،کبھی صدر کے عہدوں کا مسئلہ اوراب طاہر القادری صاحب کالانگ مارچ ”سیاست نہیں ملک بچائو” بھی خدا خدا کر کے گزر گیا۔ یہ جمہوریت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف شایدآخری معرکہ تھا،جو آصف علی زرداری کی فراست سے ان کی سیاست پرصبح و شام تنقید کرنے والوں کو مبہوت کر گیا اور اپنے پیچھے ٹی وی اینکروں اور سیاسی اداکاروں کے لئے بہت کچھ چھوڑ گیا۔

پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار میں ہر کسی نے پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کے خلاف پنجہ ازمائی کی ،کئی مہربانوں نے میڈیا میں انوسٹمنٹ کرکے قلم کاروں کوزرداری صاحب پر لگا دیا،جنہوں نے خوب نمک حلال کیا ۔وہ رات دن زرداری صاحب پر اپنی اپنی محبت کے نذرانے نچھاور کرتے رہے ،ہماری آزاد عدلیہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پیچھے لگی رہی،حکومت کے ہرارادے کے سامنے عدلیہ کی دیوار کھڑی کردی یہاں تک کہ قادری صاحب کے لانگ مارچ کے دوران وزیر اعظم کی گرفتاری کا فیصلہ بھی کر دیا ، اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ کسی طرح بھی جمہوری حکومت اپنی ٹرم پوری نہ کرنے پائے اور نہ ہی پاکستان میں جمہوری سسٹم مضبوط ہونے پائے۔ یہ حکومت بھی کیسی حکومت تھی جو کسی ادارے میں کچھ پوچھ بھی نہیں سکتی تھی۔اگر کبھی کوئی ایسی غلطی کرتا تو دوسرے دن اسکو عدالت میں پیش ہونا پڑتا۔

Raja Pervez Ashraf

Raja Pervez Ashraf

ایک خط نے اس پارٹی کا جینا حرام کر دیا اور اسکی وجہ سے بیچارے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب کو گھر جانا پڑا،جبکہ دوسرے وزیر اعظم کی عین اسوقت گرفتاری کا حکم صادر ہوا،جب قادری صاحب کا لانگ مارچ اسلام باد میں تھا ، ان دنوں ضیاء کے ساتھی، سابقہ جنرلوں نے اپنے چہیتوں کے ذریعہ اپنا سابقہ ایجنڈا پورا کرنے کی آخری بازی بھی لگا دی، جس میں وہ ہار گئے اور جمہوریت جیت گئی ۔یہ دور بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس میں حکومت کے اندر پہت سی حکومتیں کام کر رہی تھیں۔ ضیاء شاہی کے جہادی کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں فارغ تھے، ان کے کارندوں نے گلی گلی اپنے اڈے بنا لئے۔ اگر کبھی کوئی پکڑا جاتا تو فورا کوئی پرانا ضیاء شاہی کا کارندہ اسکو چھڑا دیتا۔

کام سب کے سب کوئی اور کر رہے تھے یا کروا رہے تھے مگر بدنامی پیپلز پارٹی اور خاص کر زرداری صاحب کی کروائی جارہی تھی۔ مگر آفرین ہے اس مرد حر پر ،جس نے ہروار کو مسکرا کر سہا۔ اس نے نہ صرف جمہوریت پر ہونے والے ہر حملے کا توڑ کیا بلکہ جمہوریت کی گاڑی کو ضیاء شاہی کے ایجنٹوں اور جمہوریت دشمن ٹولے کے ہر وار سے بچا کر آگے لے جاتے ہوئے دکھا دیا کہ جمہوریت کا حسن کیا ہوتا ہے ، اس نے ان سیاسی اداکاروں کے ہوش بھی اڑا دئے جو ہررات پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کر کے سوتے تھے۔ ان لوگوں کو مبہوت کر دیا ، جو پاکستان کی سپریم عدلیہ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حکومت کو لڑانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس کے باوجود کہ عدلیہ نے اس عرصہ میں جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ہماری عدلیہ میں جو آج کل دیکھنے کو ملتا ہے، وہ کسی ڈکٹیٹر کے دور میں دیکھنے کو نہیں ملا۔

عدلیہ نے ہر معاملہ میں حکومت کے بڑے لتے لئے، مگر آفرین ہے آصف علی زرداری پر جس نے چومکھی لڑائی لڑتے ہوئے جمہوریت کی گاڑی کو آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رکھا اور آج پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت اپنے پانچ سال پورے کر رہی ہے۔ پاکستان کے نئے الیکشن میں پاکستانی عوام اپنی آئندہ قیادت کا انتخاب کریں گے۔ ایک جمہوری حکومت دوسری آنے والی جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی ، جو آج تک تو عجوبہ ہی لگتا تھا ، مگر جوں جوں وقت قریب آ رہا ہے، وہ طاقتیں، جنکا مزاج ہی جمہوری نہیں، جو چاہتی ہی نہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو انکے حقوق دیے جائیں،وہ اپنے آخری معرکے پر لگی ہوئی ہیں۔ انکی پٹاری میں کئی سانپ، کئی بچھو ہیں ، کئی قسم کے ہتھیار موجود ہیں ،جنکو وہ استعمال میں لاتے ہیں۔ انکے پاس عجیب عجیب قسم کے ہتھکنڈے ہیں، جن کو وہ ہروقت بروئے کار لانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اب چونکہ الیکشن جلد آنے والے ہیں لہٰذا وہ فکرمند ہیں۔ انکی فکر مندی کا اندازہ لگانا ہوتوا نکے (شیخ رشیدٹائپ) نمائندے، جو ٹی وی پروگراموں میں آکر رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں اور عوام کو گالیاں بھی سناتے ہیں ،کو دیکھ لیں۔

 Asif Ali Zardari

Asif Ali Zardari

انکی اس مبہوتی خفت سے اندزہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کتنے پریشان ہیں ، لیکن لگتا ہے کہ جمہوریت کی گاڑی آگے لے جانے کا جو کریڈیٹ آصف علی زرداری کو جانے والا ہے، اس کو سبوتاژ کرنے کا عمل کامیاب نہیں ہو گا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری جس دن سے اس منصب اعلیٰ پر منتخب ہوئے ہیں ، کون سا حملہ ہے جو ان پر نہیں کیا گیا ، یہاں تک کہ انکے کردار پر بھی بڑے نازیبا حملے ہوئے اور وہ بھی ان لوگوں کی جانب سے، جنکے اپنے کردار داغدار ہیں ،جسکو عوام بخوبی جانتے ہیں۔ مگر کسی بھی حملے کے جواب میںمسکر ادینا ، یہ بھی آصف علی زرداری نے اپنے حصہ میں لکھوا لیا۔ آج بڑے بڑے تیس مار خان اپنی محفلوں میں کہتے سنے گئے ہیں کہ یہ آصف علی زرداری کس مٹی کا بنا ہوا ہے ، آصف علی زرداری ایسا کیوں کر رہا ہے ، وہ اس لئے کہ اسکے کندھوں پر جو ذمہ داری محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آئی۔

اس نے اسکو محسوس کیا کہ پاکستانی عوام کے حقوق کی خاطر محترمہ بے نظیر بھٹو نے جام شہادت نوش کیا، اب یہ اسکی ذمہ داری ہے۔اس نے اسکو اپنی طاقت بنا کر وہ مقاصد حاصل کرنے شروع کئے ، جسکے لئے پورا بھٹو خاندان شہید کر دیا گیا۔غصہ تو اسکو بھی بہت آتا ہو گا،خاص طور پران لوگوں پر، جن کوغریب عوام نے ہمیشہ مسترد کیا اوروہ پھر بھی بڑی بڑی باتیں ٹی وی پر آکر کرتے ہیں۔ مگر اسنے غصہ تھوک دیا اور جمہوریت کو اسکی منزل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ اس نیک کام میں اللہ تعالی کی مدداس کے شامل حال رہی اور انشاللہ آئندہ بھی رہے گی۔

Tahir Ul Qadri

Tahir Ul Qadri

علامہ طاہر القادری صاحب کا لانگ مارچ جمہوریت کی گاڑی کوپٹری سے اتارنے کا منصوبہ تھا۔ اگر اس لانگ مارچ میں حکومت کوئی غلطی کرتی تو یہ بہت خوفناک عمل ہوتا اور پھر پاکستان کے عوام جمہوریت ہی کو ترس جاتے۔ اس مرحلے کو بھی صدر پاکستان آصف علی زرداری نے جس انداز میں اور جس خوش اسلوبی سے حل کرایا وہ بھی بہت سے جمہوریت دشمنوں کی نیندیں حرام کر گیا۔ اس کام میں پاکستان کے عوام اور پوری جمہوری قیادت نے آصف علی زرداری کا ساتھ دیا ۔اس جمہوریت کیلئے بھٹو خاندان ، پاکستان پیپلز پارٹی اورجمہوریت پسند کارکنوں نے بہت زیادہ قربانیاں دیں، جنکو آصف علی زرداری ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ وہ اس گاڑی کو الیکشن اور اسکے بعد نئی جمہوری حکومت تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری کریں گے۔ اسکے بعد پاکستان کیلئے پیپلز پارٹی کے شہیدوں کا دیکھا جمہوریت کا وہ خواب انشااللہ پورا ہو گا، جس کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت اور دوسری جمہوری طاقتوں کے کارکنوں نے جام شہادت نوش کئے تھے۔

تحریر : قیصر ملک برلن ، جرمنی

Qaiser Malik

Qaiser Malik