حضرت مولانا جلال الدین رومی

Rumi

Rumi

قونیہ کےتمام شرفاءاور امراءدرویش کو خاموشی سےدیکھتےرہےمگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ ان کےپیچھےجاتےبس درویش کےچند خادم بےقرار ہو کر اپنےمخدوم کےپیچھےبھاگی۔ ان کیلئےاس مرد قلندر کا یہ انداز ناقابل فہم تھا۔ خادم درویش کےقریب پہنچ گئےمگر اس سےیہ پوچھنےکی جسارت نہ کر سکےکہ وہ کہاں جارہا ہی؟ درویش جس طرف سےبھی گزرتا تھا‘ کچھ لوگ اس کےہمراہ ہو جاتےتھی۔۔۔۔ مگر اس نےنظر اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا۔ اب وہ شہر کی حدود سےباہر نکل آیا تھا۔ اس کےہمراہ چلنےوالےخوف سےلرزنےلگی‘ سامنےہلاکو کےسپہ سالار بیچو خان کا لشکر نظر آرہا تھا درویش یکایک مڑا اور ان لوگوں سےسخت لہجےمیں مخاطب ہوا۔
”تم اپنےگھروں کو واپس جائو۔ کیا یہ کوئی تماشا ہو رہا ہی؟ اس قہر آسمانی سےخدا کی پناہ مانگو۔“ یہ کہہ کر درویش آگےبڑھا اس کا انجانا سفر دوبارہ شروع ہو گیا تھا۔
ساتھ جانےوالےاسی مقام پر رک گئےجہاں اس نےٹھہر جانےکا حکم دیا تھا درویش آگےبڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ منگولی لشکر کےقریب تر ہوتا چلا گیا اہل شہر اور خادم جو اس وقت وہاں موجود تھےخوف و دہشت سےکانپنےلگی۔ درویش کا ناتواں جسم منگول تیر اندازوں کےنشانےپر تھا۔ تاتاریوں کےترکش سےنکلا ہوا ایک تیر بھی درویش کا کام تمام کر سکتا تھا۔۔۔۔ مگر وہ مرد خدا آج ہر شےسےبےنیاز تھا۔ اس کےقدم تیزی سےاٹھ رہےتھےپھر وہ قونیہ کےان باشندوں کی نظروں سےاوجھل ہو گیا جو اسےبیچوخان کےلشکر کی طرف بڑھتےہوئےدیکھ رہےتھی۔
فاصلےمزید کم ہو گئی۔ درویش ایک بلند ٹیلےپر چڑھنےلگا۔ اس ٹیلےکےدوسری طرف تاتاریوں کا لشکر خیمہ زن تھا۔ درویش چوٹی تک پہنچا پھر اس نےاپنےاطراف پر نظر ڈالی دور تک منگول سپاہی بکھرےہوئےتھےاور نگاہوں کےسامنےسپہ سالار بیجوخان کا خیمہ تھا جو دوسرےخیموں سےزیادہ وسیع اور نمایاں نظر آرہا تھا درویش نےٹیلےپر مصلیٰ بچھا دیا۔ ایک لمحےکیلئےآسمان کی طرف دیکھا اور نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی چند ساعتیں بھی نہیں گزری تھیں کہ کسی تاتاری کی نظر درویش پر پڑ گئی۔ اس نےاپنےدوسرےساتھی سےکہا۔ پھر دیکھتےہی دیکھتےسینکڑوں منگول سپاہی ٹیلےکی طرف متوجہ ہو گئےجہاں ایک مسلمان اپنےاللہ کی عبادت میں مشغول تھا دشمن فوج اس کی عبادت کا مفہوم تو نہیں سمجھ سکےمگر انہیں یہ خیال ضرور ہوا کہ وہ کوئی مسلمان جاسوس ہےجو بیجو خان کےلشکر کی مخبری کرنےآیا ہی۔
اس خیال کےپیدا ہوتےہی منگول سپاہیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اگرچہ درویش تنہا تھا لیکن جنگی اصول کےمطابق اس کی موجودگی نہایت خطرناک تھی۔ سپاہیوں نےاپنےکاندھوں پر لٹکتی ہوئی کمانیں اتار لیں۔ برق رفتاری کےساتھ تیر چڑھائی۔ پوری قوت کا مظاہرہ کیا مگر کوئی ایک کمان بھی نہ کھینچ سکی۔ تنگ آکر کچھ سپاہیوں نےاپنےگھوڑوں کو استعمال کرنا چاہا تاکہ ٹیلےپر پہنچ کر مسلمان درویش کو تلواروں سےقتل کر ڈالیں لیکن اس وقت منگول سپاہیوں کی بےچارگی قابل دید تھی جب ان کےگھوڑےاپنی جگہ سےجنبش تک نہ کر سکی۔ تاتاریوں نےبےزبان جانوروں کو پیٹنا شروع کر دیا۔ فضاءمیں گھوڑوں کی چیخیں بلند ہوتی رہیں مگر انہیں ایک قدم بھی آگےنہ بڑھایا جاسکا۔ بڑی عجیب صورتحال تھی۔ سارےلشکر میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا۔ سپاہیوں کا شور سن کر بیجوخان بھی اپنےخیمےسےباہر نکل آیا سپاہیوں سےاس ہنگامےکا سبب دریافت کیا تو بےشمار انگلیاں ٹیلےکی طرف اٹھ گئیں جہاں درویش اب بھی اپنےخدا کےسامنےہاتھ باندھےکھڑا تھا۔
”یہ کیسی دیوانگی کی باتیں ہیں؟“ بیجو خان نےچیخ کر کہا۔ ”کوئی بھی ذی ہوش انسان تمہاری احمقانہ گفتگو پریقین نہیں کر سکتا۔“ یہ کہہ کر بیچوخان نےایک سپاہی سےتیرکمان طلب کیا۔ وہ ایک ماہر تیرانداز تھا۔ ہلاکو کےپورےلشکر میں اس کی یہ صفت مشہور تھی۔ تمام سپاہی حیران و پریشان بیجوخان کی طرف دیکھ رہےتھےان کی سانسیں رکی ہوئی تھیں اور ذہنوں میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا کہ اگرمنگول سپہ سالار مسلمان جاسوس کو ہلاک کرنےمیں کامیاب ہو گیا تو پھر قیامت ٹوٹ پڑےگی وہ اس کی وحشیانہ عادتوں سےواقف تھی۔