حکمران ہو تو ایسا

Hafiz Javeed

Hafiz Javeed

جب سے دنیا میں نظام حکومت قائم ہوا اس میں ایسے بھی حکمران آئے جن کے لیے لاکھوں انسانوں کو قتل کرنا ان کی املاک کو تباہ برباد کرنا کوئی مسئلہ نہ تھا ۔ ان میں سے بعض نے تو تفریحی کیلئے انسانوں کی کھوپڑیوں کی مینار بنائے تھے ان کی نظر میں انسان کی قدر بھیڑ بکری سے ذیادہ نہ تھا ۔ کچھ حکمران ایسے بھی تھے تیئس لاکھ مربع میل کے علاقے کو فتح کر کے حکومت کرنے والا زاروں قطار رو رہا ہے۔کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ نہر کے پل سے بھیڑ بکریوں کا اجڑ گزرہا تھا پل میں ایک سوراخ تھا اس سوراخ میں آکر ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گی میں اس لیے رو رہا ہوں کہ کل خدا نے پوچھا کہ بتا تیری حکومت میں بکری کی ٹانگ ٹوٹی تو کیوں ٹوٹی ہے ۔ تو اس پل کو مرمت نہیں کروا سکتا تھا ۔ معزز قارئین اکرام یہ ہے حضرت عمر بن خطاب ان جیسا حکمران نہ کوئی آیا ہے اور نہ ہی کو ئی آئے گا۔ حضرت عمر فاروق نے عدل و انصاف ، مساوات، امانت دیانت ، صداقت کا وہ درس دیا جس کی وجہ سے آپکو تمام حکومت کرنے والوں پر برتری حاصل ہے آیے ان کی خوبصورت نظام حکومت پر روشنی ڈالتے ہیں۔

محمد کے صحابی کا وہ زمانہ یاد آتا ہے ۔
بدل کر بھیس گلیوں میں وہ جانا یاد آتا ہے ۔
نجف اس عہد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہے ۔
عمر تیری خلاف کا وہ زمانہ یاد آتا ہے ۔

نام عمر والد کا نام خطاب ، تاریخ پیدائش مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے ۔ شباب کا آغاز ہوا تو حضرت حضرت عمر فاروق ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہو گے جو شرفائے عرب میں معمول تھے پہلوانی اور کشتی میں خاص مہارت حاصل کی۔ دنگل اور کشتیاں لڑتے تھے ۔ حضرت عمر 27سال کے تھے کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا ۔ حضرت عمر فاروق کیلئے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ۖ نے دعا کی کہ ا ے میرے رب عمر کو ہدایت دے اور اسلام کے نور سے منور فرما۔ حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں میں جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔حضرت عمر فاروق نے جن غزوات میں شرکت کی ان میں غزوہ بدر، غزوہ سویق،غزوہ احد، غزوہ خندق، جنگ خیبر، غزوہ حنین شامل ہیں۔ اسلام میں خلافت یا حکومت کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق کے عہد سے شروع ہوئی۔ لیکن نظام حکومت کا دور حضرت عمر فاروق کے عہد سے شروع ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق کی دوسالہ خلافت میں اگرچہ بڑی بڑی مہمات کا فیصلہ ہوا یعنی عرب کے مرتدوں کا خاتمہ ہوا اور بیرونی فتوحات شروع ہوئی۔ تاہم حکومت کا کوئی خاص نظام قائم نہیں ہوا ۔ اور نہ اتنا مختصر زمانہ اس کیلئے کافی ہوتا ہے ۔

حضرت عمر نے ایک طرف فتوحات کو وسعت دی کہ قیصروکسرہ کی وسیع سلطنیتں ٹوٹ کر عرب میں شامل ہو گئیں۔ حضرت عمر فاروق کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت ، خوزستان، آذر بائیجان،تبرستان ، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران ،خراسان، مصر، سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا ۔ فتوحات فاروقی کی وسعت کا جائزہ لیں تو حضرت عمر فاروق کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ 2251030مربع میل میں تھا۔ حضرت عمر نے جو فتوحات حاصل کی ان میں مسلم اور غیر مسلم مورخین نے بھی ان فتوحات کو سنہری حروف میں قلمبند کیا ۔ فتوحات کے اسباب کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام کی بدولت جو جوش ، عزم استقلال، بلند حوصلگی اور دلیری پیدا ہو گی تھی ۔ جس کو حضرت عمر فاروق نے زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا ۔ روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانہ میں اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھی البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئیں جنہوں نے فتوحات میں ہی نہیں بلکہ قیام حکومت میں بھی مدد دی ۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانتداری تھی جو ملک فتح ہو جاتا وہاں کے لوگ مسلمانوں سے اس قدر متاثر ہو تے کہ باوجود اختلاف مذہب کے سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلوں کے حقوق کا خیال رکھا حضرت عمر فاروق کی دور خلاف میں مجلس شورہ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔مجلس شورہ کے ارکان مختلف علاقوں کا دورہ کرتے اور موقع پر ہی لوگوں کے مسائل حل کرتے اور ان کو مکمل انصاف فراہم کرتے ۔خلفیہ کو عام لوگوں کی طرح کے حقوق دیے گئے ملک کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیا گیا ۔

حضرت عمر فاروق کے دور میں مندرجہ ذیل محکموں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ جن میں محکمہ افتاء ، مفتی ،فوج اور پولیس، جیل خانہ کی ایجاد، بیت المال یا خزانہ، پبلک و نظارات نافعہ، فوجی چھاونیاں ۔ حضرت عمر فاروق نے جو نہریں تیار کروائیں ان میں نہر ابی موسیٰ ، نہر معقل ،نہر سعد، نہر امیر المومنین۔ حضرت عمر فاروق نے جو امارتیں تعمیر کروائی ان میں مہمان خانے، قید خانے ، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں تعمیر کروائیں۔ سڑکوں اور پلوں کا انتظام کیا۔ مختلف علاقوں میں شہر آباد کیے گئے ان میں بصرہ، کوفہ، موصل وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت عمر فاروق نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے پوری دنیا کے تاریخ دان ان کے کارناموں کو سنہری حروف میں لکھتے آئے ہیں۔ 23لاکھ مربع میل کے علاقے پرحکومت کرنے والا کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ ایک کمرہ کے مکان میں رہتا تھا ۔ فتح خیبر کے وقت جو زمین ملی وہ غریبوں میں تقسیم کر دی۔ حضرت عمر فاروق کے دسترخوان کا جائزہ لیں تو روٹی اور روغن زیتون سے گزارا کرتے ۔ لباس کی بات کریں تو لباس بھی معمولی ہوتا تھا۔

برنس کی ایک خاص ٹوپی تھی سادگی اس حد تک کہ ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے معلوم ہوا کہ پہنے کیلئے کپڑے نہ تھے اس لیے انہیں کپڑوں کو دھو کر سوکھنے کے لیے ڈال دیا تھا ۔ خشک ہو گئے تو وہی پہن کر باہر نکلے ۔ یہ ہے حکمران 23لاکھ مربع میل کے علاقے پر حکومت کرنے والا حضرت عمر فاروق ۔ جس کے خزانہ میں سونے ، چاندی، ہیرے جواہرات اور ریشم کے انبار تھے ۔ اس کے پاس نہ کچھ پہننے کیلئے نہ کھانے کیلئے ۔دوسری طرف چھوٹے سے خطے پر حکومت والا آصف علی زرداری ہے جس کے کچن کا خرچہ کروڑوں روپے ہے۔ لاکھوں روپے کا پٹرول صدر اور وزیر اعظم کی گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے ۔ سابق وزیر اعظم جو سید زادہ ہے اس نے 83لاکھ روپے مالیت کے تین سوٹ خرید ڈالے ۔ کروڑوں روپے مالیت کی سینکڑوں گاڑیاں ان کے پاس ہے ۔ قلعوں نما عالیشان محل ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں ملازمین ہیں۔ لوٹ مار کے 97ارب ڈالر باہر کے ملکوں میں پڑے ہیں۔ایک وہ تھا جو بکری کی ٹانگ ٹوٹنے سے رو رہا تھا اور ایک یہ ہے سینکڑوں انسانوں جن میں اکثریت معصوم بچوں اور عورتوں کی ہوتی ہے ۔ ڈارون حملوں اور دیگر دہشت گردی کے واقعات میں مر رہے ہیں۔ اور یہ اپنے اقتدار کو بچانے میں لگے۔ اپوزیشن والے ان سے اقتدار کھینچنے میں لگے ہیں۔ سیاستدانوں ہوش کے ناخن لو ۔ خدا کے قہر سے بچو اور آج تمہاری پید ا کی ہوئی مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور غربت سے ہزاروں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ اکثر فاقوں سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے آپکو حضرت عمر فاروق کے جانشین بنائو اور انکے نقشے قدم پر چلو ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔لوٹی ہوئی تمام دولت واپس لے آئوورنہ کل قیامت کے دن جن کے منہ سے نوالہ چھین رہے ہو ۔ جن کو ڈارون حملوں سے مروارہے ہوں ان کا ہاتھ ہوگا۔ مشرف، زرداری ، گیلانی اور راجہ کا گریبان ہو گا۔ وہاں اللہ کی عدالت ہو گی ہر ایک کے ساتھ برابر انصاف کیا جائے گا۔

تحریر: حافظ جاوید الرحمن قصوری