خامشی کے بحر میں اُچھلن نہ کوئی کود ہے

water

water

خامشی کے بحر میں اُچھلن نہ کوئی کود ہے
سوچ پہ سایہ ذہن پہ گرد جیسا دود ہے

ذہن میں ایسے طلاطم فکر میں ایسے ملال
کہ گئے لاکھوں فسانے مدعا مفقود ہے

شوق ہے سجدہ گری تو سیکھ راز بندگی
ماننے والے کو کافی ایک ہی معبود ہے

آ جگا لیں ولولہ و حوصلہ ء ابراہیم
جس طرف بھی دیکھتا ہوں شورشِ نمرود ہے

عشق میں گرمی رہی نہ حسن کی جادوگری
زلف میں ایاز اُلجھا پیچ و خم محمود ہے

عارضی سے ہو چلے ہیں نقشہائے رنگ رنگ
بیکلی کا دور دورہ ہست ہے نہ بود ہے

ایک ہے منبع سبھی کا ایک سا سب کا خروج
جسطرح شاہد شہود و شاہد و مشہود ہے

ڈاکٹر محمد افضل شاہد