خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے

Sad Night

Sad Night

خاموشی بول اٹھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے

ستارے مشعلیں لیکر مجھےبھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جائوں،جنگلوں میںشام ہوجائے

میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سُن کر لرزہ براندام ہو جائے

مثال ایسی ہے اس دورِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ہو جائے

شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

شکیب جلالی