دریا سوکھ رہے ہیں

quenching thirst

quenching thirst

اس گرم اور بدن کو پیاس سے سکھا دینے والی رات کو گزرے بیس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، دن بھر قہر کی گرمی پڑی تھی اور سورج سے آگ برسی تھی اور جب رات آئی تو اس میں بھی سکھ کا ایک سانس بھی نہ تھا۔ بدن کے اندر پیاس کا صحرا تھا اور اسکے باہر تن پسینے سے بھیگتا تھا اور زبان سوکھتی ہوئی تالو سے چپکتی تھی۔

میری عادت ہے کہ سردیاں ہوں یا گرمیاں میں اپنے سرہانے پانی کا ایک گلاس رکھ کر سوتا ہوں کیونکہ لامحالہ رات کے اندر مجھے پیاس محسوس ہوتی ہے اور میں پانی کے گھونٹ بھرتا رہتا ہوں۔

ظاہر ہے اگر موسم بھی گرمی کی شدت کے ہوں تو میری پیاس کا کچھ حساب نہیں رہتا اس رات تو لگتا تھا کہ آگ برساتا سورج غروب ہی نہیں ہوا۔ بدستور شعلہ بار ہے میں کچھ دیر اونگھ لیتا اور پھر تپائی پر دھرے پکے دھاتی گلاس میں سے دو چار گھونٹ بھر کر اپنے بدن کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا۔

غنودگی اور بیداری کے درمیان ایک لمحے میں میں نے پانی پینے کیلئے گلاس تھاما تو مجھے واہمہ سا ہوا کہ آخری بار جب میں نے پانی پیا تھا تب پانی کی سطح قدرے بلند تھی۔

میری ہتھیلی جو گلاس کی دھاتی سطح کے گرد لپٹی ہوئی تھی اس سے محسوس ہوتا تھا کہ گلاس میں پانی کسی قدر کم ہو چکا ہے اب میرا نیم خوابیدہ ذہن سوال کرنے لگا کہ اگر یہ واہمہ درست ہے تو گلاس میں پانی کم کیسے ہو گیا۔ وہ پانی کہاں گیا؟ اس پیاسی رات کے چند روز بعد میں نے مشہور آرکیولوجسٹ مغل صاحب کا ایک مضمون اب مرحوم ہو چکے ہیں پڑھا جو قدیم چولستان کے بارے میں تھا۔

اس مضمون میں ایک فقرے نے میری توجہ حاصل کر لی اور وہ کچھ یوں تھا کہ ایک زمانے میں دیو مالائی دریا سرسوتی چولستان میں بہتا تھا اور پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر خشک ہو گیا۔

اب ایک وسیع پاٹ والا دریا ہزاروں برس سے بہنے والا یکدم خشک کیسے ہو جاتا ہے؟ انہی دنوں دریاؤں کے خشک ہو جانے کی وجوہات پر ایک تحقیقی مقالہ میرے ہاتھ آ گیا۔

معلوم ہوا کہ کبھی کبھار ان پہاڑوں میں موسموں کے تغیر سے بڑے بڑے تودے یا گلیشئر دریا کے منبے کے قریب گر کر اسے یا تو روک دیتے ہیں اور یا پھر اس کا رخ بدل دیتے ہیں۔

valley of thirst

valley of thirst

اسکے سوا میدانوں میں اگر ہریاول کم ہو جائے اور ریگستان ظہور میں آنے لگیں تو گرمی کے باعث دریا ہونے ہونے خشک ہو جاتے ہیں۔

اسکے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں آج چولستان کا صحرا ہے وہ علاقہ ایک زمانے میں گھنے جنگلوں پر مشتمل تھا اور ان جنگلوں میں ہاتھی، گینڈے اور دیگر جانور عام پائے جاتے تھے۔ جن کے نقش ہمیں موہنجوڈارو سے دریافت ہونے والی تختیوں پر ملتے ہیں۔

یعنی جن زمانوں میں سرسوتی بہتا تھا۔ اسکے کنارے ایک عظیم تہذیب سانس لیتی تھی جو موہنجوڈارو اور ہڑپہ کا ایک تسلسل تھی۔ اس سارے منظر نامے کیبعد مجھے یہ خیال آیا کہ سرسوتی کے کناروں پر کوئی ایک بستی ہزاروں برس سے آباد ہو گی جس کی حیات کا انحصار اس دریا کے پانیوں پر ہو گا تو کوئی ایک شخص اس بستی کا ایسا ہو گا جو سوچ بچار کرنیوالا ہو گا، غور کرنیوالا ہو گا۔ تو شاید اسے معلوم ہو گیا ہو گا کہ سرسوتی کے پانی کم ہو رہے ہیں اور یہ دریا بالآخر سوکھ جائیگا اور اسکے کنارے آباد بستی کھنڈروں میں بدل جائیگی، ہمیشہ کیلئے صفحہ ہستی سے مٹ جائیگی۔

تو اب ایک ایسا شخص جسے معلوم ہو گیا ہے کہ دریا سوکھ رہا ہے اور میری بستی اجڑنے والی ہے تو اسکی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟ کتنا بڑا دکھ اور رنج اسکے اندر ہو گا؟ اور وہ لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تم سب فنا ہونے کو ہو تمہاری بستی کا نام و نشان نہ رہیگا تو کیا لوگ اسکی بات پر یقین کرینگے یا اسکا مذاق اڑائینگے یا پھر اسے ایک قنوطی قرار دیکر بستی سے نکال دینگے۔

میں نے اسی تھیم پر مبنی اپنے ایک ناول ” بہاؤ ” کے اس کردار کا نام ورچن رکھا جسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بستی اجڑنے کو ہے۔ مجھے یہ ناول تحریر کرتے ہوئے گمان بھی نہ تھا کہ ایک دن میں بھی یہ ورچن کے کردار میں ڈھل جاؤں گا۔ میں بھی آگاہ ہو گیا ہوں کہ سندھ، راوی، اور چناب میں پانی کم ہو رہے ہیں اور یہ مکمل طور پر خشک بھی ہو سکتے ہیں اور انکے کناروں پر ہزاروں برسوں سے آباد جو تہذیب ہے وہ ملیا میٹ بھی ہو سکتی ہے۔

ان دریاؤں کو اپنوں کا خون زہر آلود کر رہا ہے۔ صرف سیاستدان اور حکمران ہی نہیں بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی رزق حرام کو جائز سمجھتی ہے اور اسکے بل بوتے پر عیش کی زندگی گزارتی ہماری تہذیب کے دریا کو خشک کر رہی ہے۔

ناجائز مربعے، فیکٹریاں، غیر ملکی اکاؤنٹ، بھتے اور زمینوں پر قبضے ریت کے وہ صحرا ہیں جن میں دریاؤں کے پانی جذب ہو رہے ہیں اور بہاؤ ہر دن گزرنے پر پہلے سے بھی مدہم ہوا جاتا ہے اور کوئی ایسا دن بہر طور آ جائیگا جب دریا تھم جائیگا اور سب ایکدوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔

سوات، وزیرستان، اور ڈیرہ غازیخان میں اور کوئی پنجاب حکومت کی کشتی ڈبونا چاہتا ہے اور کوئی مرکز کو غرق کرنا چاہتا ہے اور کسی کو کچھ احساس نہیں کہ ڈبونے کیلئے بھی تو ایک دریا درکار ہوتا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قرآن پاک میں ایسی برباد ہو چکی بستیوں کا ذکر آیا ہے جنہوں نے نافرمانی کی اور ان پر عذاب نازل ہو گیا اور ہم صریحاً نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں مختلف رنگوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں تنہا نہیں ہوں جو اس سوچ بچار میں ہوں، میری طرح لاکھوں ورچن اور ہیں جو دریاؤں کے کنارے بیٹھے جان چکے ہیں کہ یہ سوکھنے کو ہیں اور وہ بھی بستی والوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ابھی کچھ وقت ہے ان دریاؤں کا پانی نہ سوکھنے دو ورنہ تمہاری بستیاں اجڑ جائینگی، تم بے گھر ہو جاؤ گے لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔

ہم ایسے ورچنوں کو پاگل قرار دیتے ہیں اگر ہم نے انکی آواز پر کان نہ دھرا تو پھر ہزاروں برسوں بعد کوئی شخص اس سوچ بچار میں پڑے گا کہ یہ جو کبھی راوی، سندھ اور چناب دریا ہوا کرتے تھے یہ کیسے خشک ہو گئے اور انکے کنارے جو بے مثال تہذیبیں تھیں وہ کیسے کھنڈر ہو گئیں؟

dried up river

dried up river

کیا ان دریاؤں کے کنارے پر جو بستیاں آباد تھیں ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو خبر کرتا کہ لوگو دریا سوکھ رہے ہیں تمہاری بستیاں کھنڈر ہونے کو ہیں، کوئی ایک شخص بھی نہ تھا۔

تحریر: مستنصر حسین تارڑ