دل رنجیدہ کو اکثر یہی سمجھاتے ہیں

beautiful citiy in night

beautiful citiy in night

دل رنجیدہ کو اکثر یہی سمجھاتے ہیں
جو بھلا کرتے ہیں کب اس کا صلہ پاتے ہیں

کہتے ہیں دشت کا سناٹا یہاں پر بھی ہے
آج کی شب چلو ہم شہر میں رہ جاتے ہیں

درد کی لہروں سے بنتے ہیں صحیفے جتنے
ہجر کی شب دل مخروں پہ اتر آتے ہیں

وسعت آئینہ کی وسعت صحرا کم ہے
آپ کی عکس سے تو صرف بہل جاتے ہیں

آپ کو عرض تمنا کی طلب ہے ہم سے
ہم توقع بھی اگر رکھیں تو گھبراتے ہیں

آج کل بات بھی کرنے کا نہیں ہم کو دماغ
آپ سے ملنے تعجب ہے چلے آتے ہیں

شاہد رضوی