دوست ہی کیا سدا رہیں گے ہم

sleeping lovers

sleeping lovers

دوست ہی کیا سدا رہیں گے ہم
بات کچھ تو بڑھائیے صاحب

ہو گیا جو لکھا تھا قسمت میں
کاہے آنسو بہائیے صاحب

پاس آ جائیے خدا کے لیے
دل نہیں اب جلائیے صاحب

بھوک تو مر گئی ہماری اب
کس کی خاطر کمائیے صاحب

تھوڑی اشکوں کی کیجیے برسات
آگ دل کی بجھائیے صاحب

کیوں ہیں خاموش اس قدر آخر
کچھ تو ہم کو بتائیے صاحب

خوف آتا ہے اس اندھیرے سے
ہاتھ اپنا بڑھائیے صاحب

آپ کے ساتھ کون تھا کل شب
ہم سے کچھ مت چھپائیے صاحب

ماہ رخ بے وفا ہیں لوگ یہاں
کیا بھلا دل لگائیے صاحب

ماہ رخ زیدی