روزانہ ساڑھے گیارہ افراد کا اضافہ ہونا کیا مسئلہ ہے

pakistan

pakistan

ہر دور میں یہ بات مصمم حقیقت رہی ہے کہ آدمی پیدا ہوتا ہے اور انسان تہذیبی عمل سے بنتاہے اور اِس کے ساتھ ہی ہرمعاشرے اور تہذیب میں یہ بھی خیال کیاجاتارہاہے کہ اگرتم دوسروں پر اثرڈالناچاہتے ہو تو تمہیں خود کوایک ایسے انسان کے روپ میں ڈھالنا ضروری ہے جس میں بے شمار خوبیاں موجود ہوںجس سے تم دوسروں کے لئے عمل خیراور عمل انگیز ثابت ہوسکتے ہویہاں ہم اِس کلیے کی وضاحت کے لئے ا یمرسن کا ایک قول نقل کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے کہکسی ملک کی تہذیب کا صحیح معیار نہ تو مردم شماری کے اعدادمیں ہیں نہ بڑے بڑے شہروں کے وجودمیں،نہ غلے کی اِفراط اور نہ دولت کی کثرت میںہے بلکہ اِس کا صحیح اور حقیقی معیارتو صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ ملک کس قسم کے انسان پیدا کرتا ہے۔
آج اگر ہم ایمرسن کے اِسی قول کی روشنی میں اپنے ملک کی 63یا 64سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ انداز لگانا کوئی مشکل نہیں ہوگاکہ اِس سارے عرصے کے دوران ہم نے اپنے یہاں کتنے آدمی پیداکئے اور اِن میں سے کتنوں کو انسان بننے کا موقع فراہم کیااِس حوالے سے بات کرنے اور نقطے سے نقطہ ملانے بیٹھ جائیں تو بات کہاں سے کہاں نکل جائے گی اور اِس سے سوائے بحث برائے بحث کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوپائے گا۔لہذ ا آج ہم اپنے اِس مختصر سے وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے اس اصل موضوع کی طرف آناچاہیں گے جس نے ہمیں آج کا اپنایہ کالم لکھنے کے لئے متحرک کیاہے۔وہ نقطہ یہ ہے کہ ہمارایہ مملکتِ خداداد جِسے دنیا پاکستان کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے جس کی 64سالہ زندگی میں آنے والے حکمرانوں میں جمہو ری حاکموں کا دورِ اقتدار آمر حکمرانوں سے کم ہے۔
شائد یہی وہ وجہ خاص رہی کہ ہمارا یہ ملک جو زرعی اعتبار سے ہر قسم کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود بھی تمام سہولتوں سے محروم رہا اور آج تک اِن سے محروم ہے یہاں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ آمر حکمرانوں نے ہمارے ملک پر جتنے عرصے بھی اپنی حکومت قائم رکھی انہوں نے ملک کے نظام کا تو ستیاناس کیا جو کیاانہوں نے نہتی بے کس و مجبور اور ہر قسم کی بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کو بھی اپنے ظلم وجبر اور تسلط سے اپنے بوٹوں تلے روندے رکھا اور یہ اِس طرح نہ تو ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکے اور نہ ہی کچھ ایسا کرسکے جس کو قوم سنہرے لفظوں میں یادرکھتی اور یہ اِن آمر حکمرانوں کا ہی سب کیا دھراہے کہ جن کی کارستانیوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں نہ آٹا،چاول ہے نہ چینی اور دال اور اِسی طرح اِس میںنہ بجلی ہے نہ گیس ،پانی ہے نہ پیٹرول ،معیاری تعلیم ہے نہ صحت ،حکومت ہے نہ قانون، زندگی ہے نہ خوشحالی۔
اگر آج کہنے کو موجودہ جمہوری حکومت کے دور میںکوئی چیز ہے تو بس عوام ہے تووہ بھی مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن، اقرباپروی ، لوٹ مار اور ظلم وزیاتیوں کی وجہ سے اپنی زندگی سے بیزارنظرآتی ہے ،ایک ایسی جمہوری حکومت جس کے آنے کا ہمارے ملک نے برسوں سے حسین خواب دیکھاتھا یہ موجودہ حکومت بھی قدم قدم پر مصالحتوں کی ایک بھاری پوٹری (گھٹری ) کا بوجھ اپنے سر پر اٹھائے ہوئے ہے جو اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تر ہے مگر ایسالگتاہے کہ اب مصالحتوں کی یہ گھٹری جو موجودہ جمہوری حکومت اپنے سر پر ساڑھے تین سالوں سے اٹھائے ہوئے ہے یہ اِسے چھوڑنا نہیں چاہ رہی ہے اورنہ حکمرانوں اِسے اپنے سر سے پھینکانہیں چاہ رہے ہیں اِن دونوں کی آپس کی ڈیل کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج چار سو موت اور دہشت کا راج ہے ایسے میں ایک خبر یہ ہے کہپاکستان اِس وقت 18کروڑ 50لاکھ آبادی کے ساتھ دنیاکا چھٹاملک ہے۔
آبادی اور منصوبہ بندی کے ماہرین کا خیال ہے کہ سال 2050میں 15کروڑ کے اضافے کے ساتھ ہمارے اِ س مفلوک الحال ملک کی آبادی33کروڑ 50لاکھ تک پہنچ جائے گی اِس طرح ہمارے ملک کی آبادی میں اتنی تیزی ہونے والے اضافے کے باعث ہمارا ملک بڑی آبادی رکھنے والا دنیا کا چوتھابڑا ملک بن جائے گااگرچہ دوسری جانب ہمار ا پڑوسی حریف ملک بھارت جس کی آبادی 2050میں پونے دوارب سے تجاوز کرجانے کی وجہ سے چین سے بھی آگے نکل جائے گااور اپنی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا ایک بڑی آبادی والا ملک کہلائے گااور چین اپنے یہاں رائج خاندانی منصوبہ بندی کی وجہ سے ایک ارب 43کروڑ 70لاکھ افرادرکھنے والادنیا کا دوسرابڑاملک ہوگا۔جبکہ ماہرین آبادی اور منصوبندی کے مطابق دنیا کے بھارت اور چین جیسے اِن ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں روزانہ بڑھنے والی آبادی کا تناسب ذراکم ہے مگر اِس پر بھی اِن کے شدید تحفظات ہیں۔
پاکستان جہاں لاقانونیت اور دہشت گردی کا راج ہے جن کی روک تھام کے لئے حکومتی مشینری ہر طرح سے ناکام نظرآتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان اپنے یہاں ہر لمحہ اور ہر سانس ہونے والی دہشت گردی اورقتل وغارت گری کی وجہ سے دنیا کے بدامنی کے شکار ممالک میں 8واں بڑاملک بن گیاہے ایک ایساملک جہاں ہر قدم پر موت اور وحشت کے سائے منڈلاتے ہیں یہاں کے باسیوں کی زندگی دہشت گردوں کے رحم وکرم پر ہے مگر اِس کے باوجود بھی پاکستان میں روزانہ 11500ہزار افراد کا اضافہ ہورہاہے یعنی یہ کہ ہر روز ہر کنبے میں بیٹا یا بیٹی پیداہورہے ہیں اور اِن خاندانوں میں اِن کی پیدائش پر مبارک باد کی صدائیں بلند ہورہی ہیں اور خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں اور دوسری طرف اِن سے بے خبر یہ ملک ہے کہ اِن معصوم بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی بڑھنے والے ہر طرح کے مسائل میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے بے شمار پریشانیاں جنم لے رہی ہیں۔
یہاں ہماراخیال یہ ہے کہ ملک میں روزانہ 11500افراد کے اضافے کی وجہ سے بڑھنے والے مسائل کی روک تھام اور اِن کے تدارک کے لئے حکمرانوں کو فوری طور پر یہ فیصلہ ضرور کرناہوگاکہ وہ ملک میں ڈیلی ساڑھے گیارہ افراد کا اضافہ برداشت کرنے کو تیار ہیں یامستقبل میں اِن سے پیداہونے والے سنگین مسائل سے نمٹنے کے لئے اِن میں صلاحیتیں موجود ہیں یا یہ دوسروں پر تکیہ کرکے یہ سب کچھ یوںہی کرنے پر تیار ہیں جو ہورہاہے ہونے دیاجائے اگر کوئی مشکل درپیش آئی تو حسبِ عادت اپنے پرائے، دوست دشمن سب سے ہاتھوں میں کشکول اٹھائے امداد کی اپیل کرکے ہر مشکل سے نکل جائیں گے اور ملک و قوم کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑکراپنی راہ چلتے بنیں گے۔کیوں کہ بقول ہمارے حکمرانوںاور سیاستدانوںکے اِس ملک میں اب رکھا ہی کیا ہے۔
سب نے تو لوٹ لوٹ کراِس کوکنگال کردیاہے جوہم اِس فکرکریں اِس کی آبادی بڑھے یا مسائل ہمیں اپنے دل ہلکان نہیں کرناچاہئے کیونکہ اِس ملک میں اور سب کام تو رک سکتے ہیں مگر بچوں کی پیدائش نہیںاِس کی کیا وجہ ہے۔
تحریر :  محمد اعظم عظیم اعظم