ریاضی کے قاعدے ابن انشاء سے معذرت کے ساتھ

Pakistan Politicians

Pakistan Politicians

ویسے ریاضی کے رو سے حساب کے چار بڑے قاعدے ہیں جمع ٫تفریق٫ضرب٫تقسیم اور ہمارے سیاستدان تمام کے تمام ہی ماہر ریاضی دان ہی ہیں اور اُس کے لئیے انہوں نے ریاضت بھی بہت کی ہے کچھ سیاست دانوں نے ریاضی کے خودساختہ اور بہت قیمتی قاعدے بھی نکالے ہیںصوبائی ٫لسانی٫مذہبی اور تقسیم کو جوں کا توں ہی رہنے دیا گیا کیونکہ اس سب حساب کتاب کے بعد تقسیم ضروری ہوجاتی ہے۔

اس میں کچھ کہنہ مشق سیاست دان جمع ہوجاتے ہیں اور پھر عوام کو بلندوبانگ دعوئوں اور ہرطرح کے حربے سے اکٹھا کرنا شروع کردیتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا کام مکمل ہوگیا ہے پھر وہ تفریق کا عمل شروع کردیتے ہیں کچھ صوبائیت کے نام پر کچھ لسانیت کے نام پر اورذیادہ تر مذہب کے نام پر تفریق ڈالنے میں وہ کافی حدتک کامیاب ہوجاتے ہیںاور پھرآہستہ آہستہ وہ عوام پر کاری ضرب لگانا شروع کردیتے ہیں جس کے بعد تقسیم کاعمل شروع ہوجاتا ہے۔

جمع ویسے اگر بات جمع کی جائے تو جمع کرنا آج کل کے دور میں بہت مشکل کام ہے کیونکہ مہنگائی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اس لئے عام آدمی جمع کا قاعدہ تو بھولتا ہی جارہا ہے سوائے چند سیاست دانوں اور اعلٰی افسرشاہی کے یہ سب لوگ جمع کے حساب کو ازبر یاد رکھتے ہیں اور جیسے جیسے موقع ملتا جاتا ہے ویسے ویسے یہ لوگ جمع کرتے رہتے ہیں اور یوں صرف چند طبقات تک جمع کا قاعدہ زور شور سے جاری ہے ۔جن میں ان کا ہاتھ بٹانے کیلئے کچھ اہم ترین سرکاری دفاتر پیش پیش ہیں کیونکہ کسی بھی کام کے لئے فائل آگے بھجوانی پڑتی ہے تو اُس کے لئے بھی کچھ جمع کرکے کلرک بادشاہ کے سامنے رکھا جاتا ہے۔

تو فائل اپنے آپ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتی ہے اور جمع کا عمل جاری رہتا ہے
ہاں البتہ یہ ہوجاتا ہے کہ بسا اوقات جمع کرانے والے کے پاس کچھ جمع نہیں رہتا یوں یہ حساب اہم قاعدہ جارہ رہتا ہے اور قوی اُمید ہے کہ جب تک ہمارے حکمران کے اندر خوف خدا نہیں پیدا ہوتا جب تک جمع کا یہ نیا قاعدہ اسی طرح سے جاری رہے گا۔

تفریق یہ بھی حساب کا اہم ترین سبق ہے جو کہ نئے ریاضی کے قاعدے میں کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب تک آپس میں تفریق نہ پیدا کی جائے کچھ جمع نہیں ہوسکتا اس کے لئے ہمارے سیاستدانوں نے مختلف طریقے اپنا رکھے ہیں جس میں سب یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں کوئی کسی کو سبق دیتا ہے کہ تو پنجابی ہے تو دوسرا کہتا ہے میں بلوچی ہے اور اُدھر سے دوسرا نعرہ لگایا دیا جاتا ہے میں پٹھان ہوںاور پھر ایک طرف سے آواز آتی ہے کہ میں سندھی ہوں اور یوں تفریق کا عمل شروع ہوجاتا ہے پھر اس میں مخصوص مذاہب کی جماعتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں اور مذہب کے نام پر تفریق پیداکرنا شروع کردیتی ہیں اور ایک دوسرے پر کافر ہونے کے فتوے بھی جاری کردئیے جاتے ہیں۔

Pakistan

Pakistan

تفریق کے بنیادی اصولوں میں سے صرف ایک عدد نکالنا مقصود ہوتا ہے باقی اعداد خودبخود نکالنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر نکلتے ہی چلے جاتے ہیں اور پاکستان میں تو تفریق کا عمل بہت ہی تیزی سے جاری ہے اور مخصوص افراد اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے اس تفریق کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں ابن انشاء نے جمع تفریق کے حوالے سے ایک بہت ہی عمدہ بات لکھی ہے۔

کہ( یاد رکھئے جو لوگ زیادہ جمع کرلیتے ہیں وہ ہی تفریق بھی کرلیتے ہیں انسانوں اور نسانوں میں مسلمانوں اور مسلمانو ں میں)ویسے اس تفریق کے عمل کو ہوا دینے میں ہم سب لوگ برابر کے قصوار ہیں کیونکہ قران پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمام مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں تفرقہ میں نہ پڑو ۔ اور صد افسوس کے ہم اللہ کے وضع کردہ اصولوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اسی وجہ سے ہم
لوگوں کے دل سیاہ پڑتے جارہے ہیں جس کی بنا پہ ہم سب ایک پاکستانی اور ایک مسلم کے سبق سے ہٹ کر تفریق میں پڑ گئے ہیں
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے آمین۔

ضرب ویسے توضرب کی اپنی بہت سی شاخیں ہیں جس پر لکھنے کیلئے جیسے کے ضرب کاری۔ ضرب شدید ۔ڈنڈے کی ضرب۔چھری کی ضرب وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ بھی اور بہت سی ضربیں ہیں جو وقتا فوقتاجاری رہتی ہے جیسا کے بجٹ کے بعد بھی منی بجٹ آتے رہنا اور غیرب عوام کی کمر پر کاری ضرب لگانا اور اگر عوام احتجاج کیلئے نکلے تو پولیس کی مدد سے ڈنڈے کی ضرب لگوانا اس لئیے عوام ان تمام ضربوں کے ڈر کی وجہ سے اب کہیں بھی اکٹھی نہیں ہوتی اور حکومت کی طرف سے تمام ضربیں قبول کرلیتی ہیں۔ویسے تو ضرب کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن کی ذیادہ تفصیل میں جانے سے ڈر ہے کہ میری قلم کو ہی ضرب نہ لگ جائے اس لئے ضرب کی اتنی تعریف کافی ہے۔

تقسیم تقسیم یہ نئے حساب کا آخری اور سب سے اہم قاعدہ ہے سب سے زیادہ جھگڑا بھی اسی پر ہوتا ہے جمع تقسیم اور ضرب دینے کے بعد سب سے آخری عمل تقسیم کا ہوتا ہے اور اس پر پھرنہ ختم ہونے والے جھگڑا شروع ہوجاتا ہے جس کا اختتام اقتدار کے خاتمہ پر ہی ہوتا ہے ۔ویسے تقسیم کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جیسے اندھوں کا آپس میں ریوڑیوںکا بانٹنا اقتدار کا بانٹنا من پسند افراد کو اعلیٰ عہدے بانٹنا رشوت بانٹنا ویسے مل بانٹ کر کھانا اچھا ہوتا ہے دال تک جوتوں میں بانٹ کر کھانی چاہئے ورنہ عین ممکن ہے کہ جوتے پڑ جائیں

Amjad Qureshi

Amjad Qureshi

تحریر : امجد قریشی