زرد صحافت مردہ باد

Journalism

Journalism

ہوش سنبھالا تو علاقے کے سینئر صحافیوں کی محفل ملی جس کی وجہ سے بچپن ہی سے مجھے اخبار پڑھنے کا شوق ہو گیا آج سے 20,15سال قبل اخبار بابے یعنی بزرگ ہی پڑھا کرتے تھے نوجوان نسل کم ہی اخبار کے نزدیک جایا کرتی تھی۔میری عمر اُس وقت 14.12سال ہوگی جب مجھے کالم پڑھنے کا شوق ہوگیا اُن دنوں خبریں اخبار میں جناب حسن نثار صاحب کے کالم شائع ہوا کرتے تھے جو مجھے بہت پسند تھے۔میں اپنے جیب خرچ سے روزانہ اخبار خریدتا اور خبروں کے ساتھ ساتھ کالم بھی پڑھا کرتا تھا۔

کالم پڑھنے کا شوق بدستور جاری تھا کہ 2سال قبل میری ملاقات سینئر صحافی و کالم نویس جناب ایم اے تبسم صاحب سے ہوگئی۔اُن کی محفل میں رہ کر مجھے کالم پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا شوق بھی ہو گیا۔اُستاد محترم جناب ایم اے تبسم صاحب نے میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی جس کی وجہ سے آج میں بڑے فخر سے اپنے آپ کو صحافتی دنیا کا طالب علم سمجھتا ہوں۔

میں بات کررہا تھا 20..15سال پہلے کی توان دنوں زرد صحافت کی باتیں بہت کم تھیں یا پھر میری سمجھ سے باہرتھیں یہ باتیں لیکن پچھلے 10,8سال میں زرد صحافت نے جو عروج پایا ہے وہ خطرے کی گھنٹی ہے نہ صرف صحافتی برادری کے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے۔میں سمجھتا ہوں کہ زرد صحافت کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل قلم کا اتحاد ناگزیر ہے۔اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنے علاقے کے نامور اور صاف ستھری صحافت کرنے والے صحافیوں کا اتحاد کرانا چاہتا تھا۔

عرصہ دراز سے میری خواہش تھی کہ کاہنہ کے سینئر اور صاف ستھرے صحافی ایک پلٹ فارم پر اکھٹے ہوکر علاقے اور صحافت کی پوری طرح خدمت کریں۔اس مقصد کے لیے کچھ دوستوں جن میں سرفہرست محمد رضا ایڈووکیٹ(چیرمین پاور گروپ آف لائرز) کے ساتھ مل کر ایک دو مرتبہ کوشش بھی کی لیکن سینئر صحافیوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کامیابی نہ ملی۔ایسا نہیں تھا کہ کسی نے اکٹھے ہونے سے انکار کیا ہولیکن پڑھے لکھے اور اچھے کردار کے مالک صحافی سارے کہ سارے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے اپنے روزگار میں اس قدر مصروف تھے کہ وقت نکالنا مشکل تھا۔

پچھلے دو سال تک میری مقامی صحافت میں کوئی خاص دلچسپی نہ رہی جس کی وجہ سے اس عرصے کے دوران نئے آنے والے صحافیوں اور پریس کلب کاہنہ کے پلیٹ فورم سے بے خبر رہا ۔10-01-2013کے دن اُس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب مجھے کاہنہ کے سینئر صحافی سید زاہد حسین شاہ صاحب کا فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ بیٹا امتیاز اتوار کے دن پریس کلب کے دوستوں کا اجلاس ہے جس میں کاہنہ کے تمام صاف ستھرے صحافیوں کو مدعو کیا گیا ہے اور آپ نے ضرور آنا ہے۔

میں نے فورا اجلاس میں شامل ہونے کی حامی بھر لی اور بہت سے سوالات سوچنے لگا جو میں اجلاس میں کرنا چاہتا تھا۔اتوار کا دن آیا اور میں مقررہ وقت پر پریس کلب پہنچ گیا۔تلاوت قرآن کریم اور نعت رسول مقبول سے اجلاس کا آغاز ہوا جس کے بعد سید زاہد حسین شاہ صاحب نے اجلاس کی کارروائی شروع کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے علاقے میں زرد صحافت کرنے والے ٹائوٹ قسم کے صحافیوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ہمیں اپنا دامن بچانے کے لیے اکٹھے ہونا پڑے گا۔جس پر سب نے اتفاق کیا۔جس کے بعد پریس کلب کاہنہ کی باڈی بنانے کا مرحلہ شروع کیا گیا تو اتفاق رائے کے ساتھ سید زاہد حسین شاہ کو صدر، محمد اشفاق بھٹی کو سینئر نائب صدر،مرزاابرار بیگ کونائب صدر، احمد حفیظ کو چیرمین ،عمر شفیق ملک کو سینئر وائس چیرمین،فداحسین جٹ کو جنرل سیکرٹری، امتیاز علی شاکر یعنی راقم کو ایڈیشنل جنرل سیکرٹری، اشفاق رانجا کو فناس سیکرٹری ، جبکہ سرپرست اعلیٰ یوسف نجمی اور مرید حسین سیال کو منتخب کرلیا گیا۔

ایگزیکٹو باڈی میں ڈاکٹر محمد اکرام،حاجی افتخار نورانی،ظفر اقبال ،رحمت علی اختر،ذیشان احمد بھٹی،ڈاکٹر ظفر اقبال،سجاد علی شاکر،حاجی اسلم،ملک ارشد،ایم سیکندر،تجمل حسین،کو منتخب کیا گیا۔نو منتخب عہدیداران اور ممبرز سے خطاب کرتے ہوئے نو منتخب صدر پریس کلب کاہنہ جناب سیدزاید حسین شاہ نے کہا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے ۔عدلیہ اور انتظامیہ کی طرح صحافت بھی ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

اگر کسی ریاست کے صحافی اپنے فرائض موثر طریقے سے سرانجام نہ دیں تو ریاست کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔صحافی کے قلم سے لکھا ہوا ایک جملہ ملک وقوم کے لیے بہترین یا بدترثابت ہوسکتا ہے۔اسی لیے صحافی اپنے نظریے اور تجزیے کو بڑے ہی محتاط انداز اور حقائق کی روشنی میں پیش کرتے ہیں ۔یوں تو انسان کسی مذہب یافرقے کا قیدی نہیںبلکہ فطرتا آزاد پیدا ہوا ہے۔اس لیے آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے۔جسے دنیا میں قانونی حیثیت بھی حاصل ہوچکی ہے۔اسی طرح آزادی صحافت بھی آئینی اور قانونی حق ہے۔جہاں حقوق ہوں وہاں فرائض کا ہونا لازم ہے۔

آزادی صحافت کا آئینی حق ہے ،اسی لیے صحافت کے ہر ادارے کو چاہیے کہ وہ حقائق کی ترسیل میں بغیر کسی خوف وخطر اور دبائو کے اپنے حق کو استعمال کرے۔کیونکہ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے ‘لہٰذا صحافیوں کا فرض بنتا ہے کہ اپنی آزادی اظہار رائے پر پابندی نہ لگنے دیں۔سچے اور کھرے صحافی کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں جبکہ زرد صحافت وہ بدنماء داغ ہے جسے دھونے کے لیے ہمیں اپنا خون بھی دینا پڑا تو ہم گریزنہیں کریں گے۔صحافت ہمارا اُوڑھنا ،بچھونا ہے جس کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے،زرد صحافت کے خلاف جہاد جاری رہے گا:میں نے شاہ صاحب سے سوال کیا کہ ہم زرد صحافت کا راستہ کیسے روک سکتے ہیں ؟انھوں نے جواب دیا کہ جب ہم اپنے علاقے میں پیدا شدہ مسائل سے بروقت اور پوری طرح آگاہی رکھتے ہوئے سرکاری و غیرسرکاری محکموں میں ہونیوالی بدعنوانیوں ،کرپشن اور دیگر خرابیوں کا پردہ بذریعہ خبر فاش کرتے رہیں گے اور مظلوم کی آواز اہل اقتدار تک پہنچانے کی فیس نہیں مانگیں گے اور زرد صحافت کرنے والوں کو ٹف ٹائم دیں گے تووہ دن دور نہیں جب ہمارا علاقہ زرد صحافت سے پاک ہوجائے گا،سینئر وائس چیرمین عمر شفیق ملک نے کہا کہ ہمیں کسی پر الزام تراشی کرنے یا مخالفت برائے مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر کوئی صحافی برادری کے لیے بدنامی کا باعث بنتا ہے توہم اُس کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جس کی اجازت ہمیں ہمارا پروفیشن دیتا ہے یعنی ہم مہذب طریقے سے اپنا کام کرتے رہیں گے۔

لوگ خودہی کھوٹے کھرے کی پہچان کرلیں گے ۔انہوں نے مزید کہاکہ زردصحافت کے خاتمے کے لیے کڑی محنت کرنا پڑے گی۔اس موقع پرسینئر نائب صدرمحمد اشفاق بھٹی نے کہا کہ صحافت ہماری پہچان ہے اور پہچان پرہم کوئی حرف نہیں آنے دیں ،انہوں نے صحافت کورزد کرنے والوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا ابھی صحافت کے وارث زندہ ہیں اور ہم جلد حساب لیں گے” سرپرست اعلیٰ یوسف نجمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پریس کلب کا کوئی ممبر یا عہدیدار بڑا چھوٹا نہیں ہوگا ہم سب برابری کی سطح پر بھائی بھائی ہیں اور اگر کسی موقع پر ایک ممبر بھی موجود ہوگا تو اُس کو پریس کلب یعنی سب کی شمولیت تصور کیا جائے گا تاکہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ ہم سب ایک ہیں۔

سینئر صحافی مرید حسین سیال جن کو ہم کاہنہ کے صحافیوں کی ماں کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں چوبیس گھنٹے اپنے صحافی بھائیوں اور عوام کے لیے حاضر ہوں ،انہوں نے کہاکہ ہم مل کر زرد صحافت اور بدعنوان عناصر کا مقابلہ کریں گے اور دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جیسے مل جل کر حل نہ کیا جاسکے ”کیونکہ میں اپنے علاقے کے سینئر صحافیوں کو بچپن سے جانتا ہوں اس لیے مجھے اُمید ہے کہ اب کاہنہ میں زرد صحافت کے علمبرداروں کوٹف ٹائم ملے گا۔کاہنہ میں زرد صحافت جس قدر پھیل چکی ہے اُس کا خاتمہ تو جلدی سے ہوتا نظر نہیں آتا لیکن پریس کلب کاہنہ کے قیام کے بعد زرد صحافت کا دائرہ ضرور تنگ ہوگا۔پاکستان زندہ باد۔صحافت پائندہ باد۔ زرد صحافت مردہ باد

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیاز علی شاکر: نائب صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان(ccp)
imtiazali470@gmail.com.03154174470