سانحہ کارساز کو آج چار سال بیت گئے۔ رپورٹ

18oct

18oct

کراچی : سانحہ کارساز کو آج چار سال بیت گئے۔ تاہم پیپلز پارٹی کے جیالے آج بھی اپنی حکومت ہونے کے باوجود شہدا کے قاتلوں کو تلاش کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید آٹھ سالہ جلا وطنی کے بعد جب اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی پہنچیں تو ٹھاٹھیں مارتا عوام کا سمندر ان کے استقبال کے لئے موجود تھا۔ قافلہ ائیرپورٹ سے کارساز کے مقام پر پہنچتا ہے تو یکے بعد دیگرے دو دھماکوں میں ایک سو پچھہتر افراد شہید اور پانچ سو کے قریب زخمی ہوتے ہیں۔ اس المناک سانحے میں بے نظیر بھٹو معجزانہ طور پر محفوظ رہتی ہیں۔
واقعے میں زخمی ہونے والے عینی شاہدین سانحے کے لمحات بتاتے ہیں۔ اس المناک سانحے میں سیکڑوں ماں کی گودیں اجڑ گئیں، جو آج بھی اپنے لخت جگر کو یاد کر کے خون کے آنسو روتی ہیں مگر مطمئن ہیں کہ ان کے بیٹے نے اپنی قائد کی خاطر جان قربان کی۔ سانحہ کو گزرے چارسال بیت چکے ہیں مگر حکومت اب تک دھماکے کی نوعیت کا تعین نہیں کرسکی کہ آیا یہ خودکش حملہ تھا یا ریمورٹ کنٹرول۔ حکومت کو چاہیے کہ سانحہ کار ساز کی صحیح سمت کی تحقیقات کر کے کارکنوں میں پائی جانے والی بے چینی ختم کرے۔