شام کے پار کوئی رہتا ہے

shaam ke paar

shaam ke paar

ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
شام کے پار کوئی رہتا ہے
جسکی یادوں سے بندھی رہتی ہے دھڑکن دل کی
اور اسے دیکھ کے سینے میں یہی لگتا ہے
جیسے ویرانے میں بیمار کوئی رہتا ہے
ہم بہت چپ بھی نہیں رہ سکتے
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
اور کہتے ہیں کہ اے زرد ادواسی والے
تم تو خاموش شجر ہو کوئی
اور جھونکے سے بھی ڈر جاتے ہو
صبح ہوتی ہے تو امید سے جی اٹھتے ہو
شام ہوتی ہے تو مر جاتے ہو
ہجر اور ڈوبتے سورج کی قسم
دور تک ڈھلتے ہوئے سائے اڑاتے ہیں مذاق
شام کے پار کوئی رہتا ہے

فرحت عباس شاہ