شعرو سخن کی ایک خوبصورت شام مشہور شاعرہ ذکیہ غزل کے نام

ZAKIA GHAZAL

ZAKIA GHAZAL

کینیڈا میں مقیم مشہرو معروف پاکستانی شاعرہ محترمہ ذکیہ غزل شاعری کی دنیا میں ایک بڑا معتبر نام ہے جو اپنی خوبصورت شاعری سے شعرو سخن سے محبت رکھنے والوں کو متا ثر کر رہی ہیں ۔ ان کا اسلوب انتہائی دلکش اور دل پذیر ہے جو سیدھا سننے والے کے دل میں پیوست ہو کر اسے اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ ان کا اندازِ بیاں بھی ان کی شاعری کی طرح بہت دلکش ہے اور جب وہ ترنم سے غز ل سرا ہوتی ہیں تو پھر ان کی اثر پذیری سے بچنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ان کے دو شعری مجموعے(بادل گیت ہوا اور میں) اور (تعبیریں) ان کی مقبولیت ثا بت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ا سٹریلیا سے نشانِ اردو ایوارڈ ان کی ادبی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا کے کئی دوسرے ممالک نے بھی انھیں بہت سے اعزازات سے نوازا ہے جو اس بات کا بر ملا اعتراف ہے کہ محترمہ ذکیہ غزل اپنی شاعری سے اردو کی مقبولیت میں اہم کردرار ادا کر رہی ہیں ۔ انھیں پاکستان، امریکہ یو اے ای ،بھارت ، اسٹریلیا اور انگلینڈ میں عالمی مشاعرے پڑ ھنے کا اعزاز حاصل ہے۔اس دفعہ بھی بھارت میں ایک عالمی مشاعرے میں شرکت کے بعد وہ واپس کینیڈا جا رہی تھیں لیکن سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے انھیں تشنگانِ اردو کی ادبی تشنگی دور کرنے کیلئے جب یو اے ا ی میں رک جانے کی استدعاکی تو محترمہ ذکیہ غزل نے اسے بڑی خوشدلی سے قبول کر لیا۔

ZAKIA GHAZAL

ZAKIA GHAZAL

اس محفل سے ایک روز قبل دبئی میں میاں محمد عمر ابراہیم نے ایک بڑی ادبی نشست کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کر کے ادب سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیاتھا ۔یہ کریڈٹ تو بہر حال سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان کو جاتا ہے کہ ان کی ادب نوازی یو اے ای میں ادب کی خو شبو کو عوام تک پہنچا نے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اور محترمہ ذکیہ غزل کے اعزاز میں پاکستان ایمبیسی میں ایک بڑی ادبی نشست بھی سفیرِ پاکستان جمیل احمد خاں کی ذا تی دلچسپی کی بدو لت ممکن ہو سکی جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان ادب کو انسانی زندگی کے لئے کس قدر اہم سمجھتے ہیں ۔ شیخ خلیفہ بن عرب پاکستانی سکول نے اس پروگرام میں ایمبیسی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ اس ادبی نشست کے انتظامات بہت اعلی پائے کے تھے اور عوام کی دلچسپی نے اس میں مزید رنگ بھر دئے تھے ۔ ارشد جان پٹھان۔،نعیم چیمہ۔ عبدالجبار اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کا مذکورہ نشست کے حوالے سے ذکر نہ کرنا زیادتی ہو گی۔آرگنائزنگ کمیٹی میں ظہو رالا سلام جاوید ، طارق حسین بٹ۔ ظہور احمد اور تسنیم عابدی کی کوششوں سے صرفِ نظر کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ایک مختصر سے نوٹس پر اتنے اعلی پائے کا پروگرام منعقد کرنا ان کی اعلی صلاحیتوں کا امتحان تھا اور آرگنائزنگ کمیٹی ہر لحاظ سے اس امتحان میں سر خرو ہو ئی اور ایک انتہائی خوبصورت شام کا انعقاد کر کے کمیو نیٹی کو باہم مل کر بیٹھے کا خوبصورت موقع فراہم کیا۔

ZAKIA GHAZAL

ZAKIA GHAZAL

حاضر ین نے جس طرح شعرا کو داد و تحسین سے نوازا وہ دیدنی تھا۔ ایک ایک شعر پر داد و تحسیں کی بارش ہو رہی تھی اور شعرا کو اپنی گزارشات پیش کرنے میں لطف آرہا تھا۔محترمہ ذکیہ غزل اس ادبی نشست کی مہمانِ خصو صی تھیں اور انھوں نے جس طرح سے داد سمیٹی وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس ا دبی شام میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کر کے محترمہ ذکیہ غزل کی شاعری کی دل کھول کر پذیرائی کی۔اس شام کے حوالے سے خواتین نے اظہارِ خیال کرتے ہو ئے کہا کہ پروین شاکر کے بعد آج اتنی اعلی معیار کی شاعری سننے کو ملی۔ محترمہ ذکیہ غزل کے ترنم میں ایسا جادو ہے کے سننے والا دم بخود ہو کر رہ جاتا ہے اور محترمہ ذکیہ غزل کے سحر سے نکلنا اس کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ اس شام بھی محترمہ ذکیہ غزل اپنے پورے شباب پر نظر آرہی تھیں اور ہال میں بیٹھے ہو ئے ہر شخص کی توجہ کا مرکز تھیں۔ اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ہ آج کی شام محترمہ ذکیہ غزل کی شام تھی اور غزل گوئی میں اس دن کو ئی ان کے مدِ مقابل نہیں تھا۔ وہ پورے ماحول پر مکمل طور پر چھائی ہوئی تھیں اور ان کا ترنم ان کے تسلط میں اہم رول ادا کر رہا تھا۔ اتنے اعلی پائے کا ترنم بہت کم شعرا کو نصیب ہو تا ہے۔ محترمہ ذکیہ غزل کی شخصیت کا طلسم، ان کی شاعری کا طلسم ، ان کی ادائیگی کا طلسم، ان کے اسلوب کا طلسم اور ان کے ترنم کا طلسم اور ان تمام طلسمات کا سیدھا ہدف وہ سامعین تھے جو ہال میں ان کو اپنے سامنے غزل سرا دیکھ رہے تھے۔ اتنے سارے طلسمات سے کسی انسان کا بھی بچ نکلنا ممکن نہیںہو تااور آج کی شام کے سامعین ان طلسمات سے کیسے نپٹ سکتے تھے جسے محترمہ ذکیہ غزل نے تخلیق کر رکھا تھا لہذا ان کیلئے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ خود کو اس طلسم کے حوالے کر کے اس طلسم کا حصہ بن کر اس طلسم سے بھر پور لطف ا ندوز ہو جائیں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعا دت حسیب اعجاز اشعر کے حصے میں آئی۔ نظامت کے فرائض ابو ظبی کی بڑی ہی مقبول اور مایہ ناز شا عرہ تسنیم عابدی نے ادا کئے اور تقریب کی مناسبت سے ان کے بر جستہ اشعار اور مکالمے تقریب کا حسن بڑھاتے رہے۔

اس موقعہ پر سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے خطاب کرتے ہوئے محترمہ ذکیہ غزل کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے یو اے ا ی میں اپنے قیام سے ادب کے پرستاروں کو ایک مو قع بہم پہنچایا ہے کہ وہ باہم یکجا ہو کر امن اور محبت کے نغمے گائیں ۔سفیرِ پاکستان جمیل احمد خان نے اس موقع پرخطاب کرتے ہو ئے تمام پاکستانیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شعرو سخن کی یہ محفل اس لحاظ سے بالکل منفرد ہے کہ اس میں اپنی ثقافت کلچر اور ادب کی بات کی جا رہی ہے۔ ہمیں اپنی مٹی سے جو محبت ہوتی ہے شعرو سخن کی محفلیں اس میں میں مزید رنگ بھرتی ہیں ۔ یہ کریڈت بھی شعرو سخن کی محفلوں کو جاتا ہے کہ ان میں امن اور محبت کی بات کی جاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے پاکستان کو اس وقت اشد ضرورت ہے۔ شدت پسندی اور دھشت گردی نے امن پسند لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور معاشرے میں خو ف و ہراس اور انا رکی کی فضا پیدا کر رکھی ہے جس سے قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ میری شعرا ،ادبا اور لکھاریوں سے یہ التماس ہے کہ وہ امن اور محبت کے پرچم کو سر بلند رکھنے کا اپنا مشن جاری رکھیں پاکستان ایمبیسی ان کے اس مشن کی تکمیل میں ان کا بھر پور ساتھ دے گی۔انھوں نے کہا کہ انھوں نے جولائی میں سات روزہ کلچرل پروگرام کے انعقاد کافیصلہ کیا ہے جس میں انھیں یو اے ای کی حکومت نے بھی مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ان کے اس اعلان کو حاضرین نے بھر پور تالیوں سے خوش آمدید کہا او ان کی ادب نوا زکاوشوں کو سراہا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں مہذب قوموں کی صف میں کھڑا ہونا ہے اور وہ امن اور باہمی اعتماد اور محبت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ وہ محترمہ ذکیہ غزل کے خصوصی طور پر ممنون ہیں کہ وہ یو اے ای تشریف لائیں اور آج کی اس خوبصورت شام کو اپنی موجودگی سے چار چاند لگا دئے۔

اس مشاعرے میں گیاری کے شہدا کیلئے پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے بڑی ہی خوبصورت نظم پڑھی۔ اس شام میں سندھ اسمبلی کے ممبر لال چند اور دبئی سے مشہور سماجی سیاسی شخصیت میاں منیر ہانس نے خصوصی شرکت کر کے پروگرام کے وقار میں مزید اضافہ کر دیا۔ میاں عمر ابراہیم ۔ ظفر چوہدری ۔ انور شمسی۔ضیا صدیق۔ عمر دراز۔ میاں عابد علی۔شیخ واحد حسن۔عاشق حسین ۔ افضل بٹ۔سلیمان احمد خان ۔شعیب اختر۔توقیر ملک۔ڈاکٹر قیصر انیس۔ پرویز بھٹی۔، سہیل احمد ۔ اشرف چوہدری۔ حافظ یعقوب ۔ جواد احمد قریشی ۔میاں مطلوب احمد۔ ڈاکٹر امجد حمید انجم۔ ارسلان طا رق بٹ کے علاوہ خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کر کے شعرو سخن سے اپنی وا بستگی کا اظہار کیا۔ شعرائے کرام کے چند مخصوص اشعار قائین کی دلچسپی کے لئے ذیل میں درج کئے جا ر ہے ہیں تا کہ وہ بھی اس شام کی لظافتوں سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہو سکیں۔

محترمہ ذکیہ غزل
منصفوں صلیبوں پر فیصلے نہیں ہوتے
بے سبب بغا وت کے سانحے نہیں ہو تے

سوچ کر جدا ہونا پھر کہ مل نہ پائیں گئے
کیونکہ اس زمانے میں معجزے نہیں ہوتے

سخن کو انوکھے کمال دیتا ہے
تیرا خیال میرا دل اجال دیتا ہے

میں تجھ کو سوچ کے لکھوں تویہ قلم میرا
تیرے ہنر کو نئے خدو خال دیتا ہے

کوئی خواب ہے نہ خیال ہے
یہ عجیب صورتِ حال ہے

وہی وحشتِ ما ہ و سال ہے
یہ عجیب صورتِ حال ہے

محبت سے جہاں تسخیر کرنا چاہتے ہیں
ہم اپنے خواب کو تعبیر کرنا چاہتے ہیں

ظہو ر الا سلام جاوید
استعادہ تھے ستارے تیری دہلیز کے ساتھ
چاند بے تاب تھا آ نگن میں اترنے کے لئے

یعقوب تصور
نہ میں اڑان کا ماہرنہ پر زیادہ ہیں
میرے نصیب میں لکھے سفرزیادہ ہیں

سعدیہ روشن
درو دیوار سے ہو گئی تمھاری گفتگو
طاق ہیں گڑیوں سے خالی اور کھلونے ہٹ گئے

ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی
اس سبب سے میری تقدیر تیری بات میں ہے
میرے پائوں میں زنجر تیری بات سے ہے

تسنیم عابدی
انھیں بجھا کے اسے کس قدرخوشی ہوئی ہو گی
ہوا کی جیسے چراغوں سے دشمنی ہوئی ہے

یعقب عنقا
ہم محبت کو سمندر میں بہا آئے تھے
وہ صدف ذات اسے پھر سے بچا لایا ہے

طارق حسین بٹ شان
خونِ جگر سے عمر بھر جس کو کیا سیراب
اسی سنگدل کے ہاتھوں مٹا یا گیا ہوں میں

پروفیسر ڈاکٹر وحید الزماں طارق
منجمد دشت و در میں جواں کھو گئے
کس بیاباں میں صد کارواں کھو گئے
بانکپن سے تھے نا ز و ادا سے چلے
کیسے طوفاں میں وہ رہدا ں کھو گئے

منظور حسرت
دائم گزاری زندگی حسرت نے تیرے با وقار
غافل نہ تیرے عشق سے اور نہ رہا خدا گریز

فقیر سائیں
نام بھلے کا تو سنا ہو گا
مجھ کو اس کا فقیر کہتے ہیں

آصف رشید اسجد
تو کسی روز سمندر کی طرح بن تو سہی
میں جزیرے کی طرح تجھ میں ابھر سکتا ہوں

تحریر : طارق حسین بٹ