شفا دوا میں یا دعا میں

US Dollars

US Dollars

ہوس زر انسانی فطرت ہے اور اس فطرت نے انسانی رشتوں کے تقدس کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ زر کے عفریت نے آج کے انسان کو نگل لیا ہے۔ پیدل، سائیکل پر سوار ہونے کی کوشش میں ہے ، سائیکل سوار سکوٹر لینے کے جتن کر رہا ہے ، سکوٹر والا کار کے خواب دیکھتا ہے اور کار والا ہوائی قلعوں کی تعمیر میں لگا رہتا ہے۔ جب سے خلیج کی ریاستوں سے دولت کے انبار آئے ہیں، دوبئی چلو کا نعرہ ہر کسی کی زبان پر ہے۔

لکھ پتیوں کی تعداد لاکھوں ہوئی ہے تو دوسرے لا کھوں بھی لکھ پتی بننے کے شوق میں ان ریاستوں کی طر ف بھاگنے لگے ہیں ۔ کوئی گھر کا اثاثہ بیچ رہا ہے، کو ئی بہو بیٹیوں کے زیورات کے سہارے دوبئی کا ویزا حاصل کرنے کے چکر میں ہے اور کوئی باپ دادا کی جائیداد کو داؤ پر لگا رہا ہے ۔

جو لوگ ویزا حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں وہ نا جائز طریقے سے ملک سے بھاگنے کی کو شش میں لگ جا تے ہیں۔ اس طر ح انسانی اسمگلنگ کا کاروبار بھی شروع ہو گیا۔ صدیوں پرانی غلامی کے آثار دوبارہ نمایاں ہو گئے۔ انسان انسان کا مالک اور آدمی آدمی کا غلام ہونے لگا۔

مزدوری کے نام پر بیگار کیمپ کھل گئے ہیں۔ انسانیت کا کاروبار زوروں پر شروع ہو گیا ۔ غیر قانونی طریقوں سے لانچوں کے ذریعے آنا جانا معمول بن گیا ۔ کئی دفعہ یہ لانچیں غرقاب ہوئیں ۔

sea launch

sea launch

اپنی گم گشتہ جنت کی تلاش میں آنے والوں کو نہ ساحل ملا نہ کفن دفن نصیب ہوا اور وہ مچھلیوں کی خوراک بن گئے۔

دولت جمع کر نے کی ہوس اور اپنا معیار زندگی بہتر کرنے کی خواہش نے مجھے بھی اپنے ملک سے دور جا پھینکا اور میں دیار غیر میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے گیا۔ یہ دیا ر غیر مقدس جگہ ہے جہاں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جہاں خدا کے محبوب محوِ استراحت ہیں، جہاں ہر وقت رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ جہاں ہر لمحے عقیدت و محبت کے پھول نچھاور ہوتے ہیں، جہاں کروڑوں فرشتوں کے ساتھ لاکھوں انسان درود وسلام کے گجرے پیش کرتے ہیں، جہاں بڑے بڑے بادشاہوں، سرداروں کے سر جھک جاتے ہیں، جہاں دنیا بھر کے مسلمان اپنی آنکھوں کی پیاس اور دل کی تشنگی کو مٹاتے اور روح کو سیراب کرنے آتے ہیں۔

میں یہاں صرف دولت کمانے آیا تھا۔ لا کھوں ڈالر بنانے اور کروڑوں ریال کمانے۔ مجھے اس شہر کے تقدس سے زیادہ دولت سے پیار تھا ۔ صبح سرکاری اسپتال میں کام کرنے کے بعد غیر قانونی طریقے سے اپنے گھر میں کلینک چلاتا ۔ اسپتال سے زیادہ گھر کے مریضوں پر توجہ دیتا ۔ قیمتی اور نایا ب ادویات اسپتال سے ہی ہتھیا کر لے آتا۔ اس طر ح غیر قانونی پریکٹس کے علاوہ دواؤں کی چوری سے اپنا بنک بیلنس بڑھانے لگا۔

خوابوں میں بھی مجھے ڈالر اور ریال نظر آتے تھے ۔ ایک دن اسپتال سے لوٹا تو درجنوں ریضوں کو اپنا منتظر پایا ۔ مریضوں کو گن کر اپنی دولت میں اضافہ کرنے کا حساب جوڑنے لگا۔ اسپتال میں آٹھ گھنٹے کام کے بعد تھک جانے کے باوجود آرام میں سکون نہیں مل رہا تھا۔ ان مریضوں کو جلدی جلدی نپٹانے لگا۔

اس افراتفری میں اکثر تشخیص میں گڑبڑ ہو جاتی یا دوائی کے انتخاب میں کوئی گڑبڑ ہو جاتی ہے ۔ اس روز ایک بچے کو انجکشن غلط لگ گیا اور انجکشن نے فوری اثر دکھایا۔ بچہ تڑپنے لگا۔

injection

injection

اس انجکشن کے اثر کو ختم کرنے کے لیے میرے پاس دوسرا انجکشن موجود نہیں تھا۔ شام کا وقت ہونے لگا ۔

تمام میڈیکل سٹور بند ہو چکے تھے ۔ دوسرے اتنے فاصلے پر تھے کہ وہاں پہنچتے پہنچتے بچے کے دم توڑنے کا خطرہ تھا ۔ بچے کے والدین اس کی حالت سے سخت پریشان و مشتعل ہوئے اور انہوں نے سرکاری اسپتال میں لے جا نے اور ہمارے غلط علاج کی شکایت کی دھمکی دی۔ وہ با اثر شیخ تھا جس کا بچہ میرے زیر علاج تھا اور میرے غلط انجکشن کی وجہ سے زندگی اور مو ت کی کشمکش میں تھا۔

سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر پریکٹس کرنا جرم ہے۔ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کی سزا موت ہے۔ اب بچے کی موت کے ساتھ مجھے اپنی موت بھی نظر آنے لگی۔ دولت کے انبار میرا منہ چڑانے لگے۔ ڈالر اور ریا ل میری جان بچانے میں بے بس نظر آنے لگے اور میں اب انسان کی عظمت اور حقیقت سے روشناس ہونے لگا کہ انسان انمول ہے دولت کچھ نہیں ہے۔

آپ میرا انتظار کریں …….. میں نے شیخ سے کہا …….. میں ابھی اس ٹیکے کے توڑ کا انتظام کرتا ہوں ۔ میں بھاگا بھاگا بازار گیا ۔ مغر ب کا وقت ہونے لگا تھا ۔ تمام دوکاندار نماز کی ادائیگی کے لیے دکانیں بند کرنے لگے تھے ۔ ایک آدھ میڈیکل سٹور کھلا تھا مگر بدقسمتی سے وہاں پر مطلوبہ انجکشن نہ مل سکا۔ پاگلوں کی طر ح ادھر ادھر بہت دوڑا بہت ہا تھ پاؤں مارے، مگر ناکامی مقدر بن چکی تھی بچاؤ کے تمام در بند ہو چکے تھے اور میں سزا و قضا کی گر فت میں تھا ۔

جب ہر طرح سے ناکام ونامراد ہوا تو اچانک میری نظر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف اٹھ گئی۔ گنبد خضری، سبحان اللہ۔

Roza e Rasool PBUH

Roza e Rasool PBUH

مجھے آج اس روضہ اقدس کی عظمت کا خیال آیا جس پر زمین ناز کرتی ہے کائنات فخر کرتی ہے ، انسانیت کو قرار اور سکون ملتا ہے ، زمانے کے ٹھکرائے ہوؤں کو پناہ ملتی ہے ۔

مجھے آج احساس ہوا کہ دنیا کی ہر پریشانی کا حل تمام مصائب کی دوا، تمام دکھوں کا علاج کالی کملی والے صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی چھاؤں میں ہے. دھڑکتے دل کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جالیوں سے لپٹ پڑا ۔ شرمندہ اور ندامت کے آنسوؤں سے ان مقدس جالیوں کو بھگونے لگا ۔ اپنے کئے پر پچھتانے اور فریاد کرنے لگا ۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف کر دو، میں بھول گیا تھا۔ آپ کے مقدس شہر میں میں نے لالچ کا کاروبار شروع کیا ۔ دنیا بناتے ہوئے اپنی عاقبت بھول گیا تھا۔ میں گناہگار ہوں۔ روسیا ہ ہوں، مگر شکر ہے کہ آپ کی امت سے ہوں …. مجھے آپ کی رحمت پر بھروسہ ہے ۔ تیرے کرم کا آسرا ہے ۔

خدارا کرم کی اک نظر ادھر فرمائیے۔ وطن سے بے وطن پردیس میں مارا جاؤں گا۔ میرے بچے یتیم ہو جائیں گے۔ میری بیوی بیوہ اور بھائی لاوارث ہو جائیں گے ۔ بد نامی سے رشتہ دار دور اور والدین زندہ درگور ہو جائیں گے ۔ مجھے اپنے کئے پر ندامت ہے ۔ شرمندگی سے سر نہیں اٹھا سکتا ۔ ندامت سے بات نہیں کر سکتا ۔ میں دولت کی ہوس سے تو بہ کرتا ہوں۔ آپ کا دربار گناہ گاروں کے لے کھلا رہتا ہے۔ سیا ہ کاروں کو معاف کرنا آپ کی فطر ت ہے۔ میرے مولا میں نے حقیقت کو دیکھ لیا ہے ۔آپ کی عظمت کو پہچان لیا ہے ۔ میں اپنے گنا ہوں سے تائب ہو تا ہوں۔ میرے مولا…. میرے آقا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آنسو بہاتا بوجھل قدموں سے اپنے کلینک کی طرف چل پڑا ۔

جب کلینک پہنچا تو وہاں میری نظر بچے پر پڑی جو اپنے والد سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور اس کا باپ بھی مسکرا کر میری طر ف دیکھ رہا تھا ۔ میں سکتے کی سی کیفیت میں انہیںدیکھ رہا تھا۔ حقیقت کو خواب سمجھ رہا تھا ۔ وہ شیخ دوڑتا ہوا میرے پاس آیا۔

ڈاکٹر ! ……..وہ میرے ساتھ لپٹ کر بولا میرا بر سوں سے مریض بچہ بالکل ٹھیک ہو رہا ہے ۔ خدانے میری سن لی ہے ڈاکٹر، تمہاری دوا میں بڑا اثر ہے ۔ …. اور اس نے نہ جانے کتنے ریال میرے آگے رکھ دیے۔

میں اس دولت سے لا تعلق اس سو چ میں تھا کہ دوا میں اثر تھا یا دعا میں جو زندگی میں پہلی دفعہ دل کی گہرائیوں سے مانگی تھی اور جس نے زہریلی دوا کو شفا میں بدل دیا اور ساتھ ہی میری دنیا بھی بدل گئی …. اور مجھے آدمی سے انسان بنا دیا ۔

ROZA E RASOOL ALLAH P B U H

ROZA E RASOOL ALLAH P B U H

کچھ عرصہ بعد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو نے لگا تو ایسا معلوم ہوا جیسے اپنی تمام دولت یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں وطن پہنچ کر انسانیت کی خدمت میں مصروف رہنے لگا اور اپنے اندر سکون کی ایک ایسی لذت اور مٹھاس محسوس کرنے لگا جو دولت کے انباروں میں بھی نہیں ملتی اور جو بڑے بڑے محلوں ، بنگلوں اور کاروں میں نصیب نہیں ہو تی …. اس حقیقی تو بہ نے مجھے حقیقی سکون عطا کیا اور اب میں پر سکون زندگی بسر کر رہا ہوں۔