شناخت

زندگی کی ہر برہنہ شاخ پر تحریر ہیں
پھول چہروں پر جو ٹوٹے زرد لمحوں کے عذاب

پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ
پاکستان۔ پلیدستان
لے کے رہیں گے پاکستان
ست سری کال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حی علی الصلوٰة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بانگ نئیں دین دیاں گے۔ ساڈیاں رناں بانگیاں جاندیاں نیں
مسجد شہید گنج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورو گوبند سنگھ جی کے بچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندو مسلم بھائی بھائی
جئے ہند۔ جئے ہند

at the time of partition

at the time of partition

ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ زندگی کانپنے لگی۔ پاکستان آزاد ہو گیا۔ اسکے ذہن میں سارے منظر، ساری تاریخ اتھل پتھل ہو کر رہ گئی۔ کوئی منظر ٹھیک طرح سے آنکھوں میں نہیں سما رہا ۔ تاریخ کا کوئی حصہ ڈھنگ سے ذہن میں نہیں آ رہا۔ چاروں طرف آگ اور خون کا کھیل تھا۔ انکے قافلے پر حملہ کر دیا گیا تھا۔ بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں سب گاجر مولی کیطرح کٹ رہے تھے۔ اسکی آنکھوں میں گہرا اندھیرا اتر آیا تھا مگر اچانک اس اندھیرے میں روشنی کی ہلکی سی لکیر ابھری۔ قریبی کھیتوں میں اسی روشنی کی لکیر کے سہارے وہ چھپتے چھپاتے ساتھ والے گائوں جا نکلی تھی مگر وہاں پہنچ کر اسکی آنکھوں میں اترا ہوا اندھیرا اور گھنا ہو گیا تھا اور روشنی کی اس ہلکی لکیر نے بھی اس اندھیرے میں دم توڑ دیا تھا۔
” کون ہو تم؟”
” جی۔ مم۔ میں ۔ رشیدہ ہوں۔”
” ہا۔۔۔۔۔۔۔۔ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیطانی قہقہے اسطرح گونجے جیسے کسی ملک کو فتح کرنے کا آخری مرحلہ آ گیا ہو۔
” مجھے میری ماں کے پاس پہنچا دیں۔ خدا کیلئے! مجھے میرے پاکستان بھجوا دیں۔” وہ گڑگڑائی۔
سنو! اب تم رشیدہ نہیں، پرکاش کور ہو۔”
بے بسی کی حالت کے باوجود پتہ نہیں اس میں کہاں سے اتنی قوت آ گئی ۔ اس نے نہایت جرات کے ساتھ کہا:
” میں مسلمان ہوں اور میرا نام رشیدہ ہے، رشیدہ۔”
تب سکھ لیڈر کے اشارے پر سات سکھوں نے اسے دبوچ لیا اور اسے بازؤں، ٹانگوں اور بالوں سے پکڑ کر کسی انجانی سمت لے جانے لگے۔ رستے میں سکھ لیڈر نے طنزاً کہا:
” اب بتاؤ پاکستان کا مطلب کیا ہے؟”
” لاالہ الا اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے سختی سے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا مگر پھر بھی اس نے جیسے تیسے کلمہ پڑھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد الرسول اللہ۔”
وہ اسے ایک خالی مکان میں لے گئے اور وہاں جا کر ایک کمرے میں زور سے پٹخ دیا۔
” اسلام کے دشمنو، انسانیت کے دشمنو، ہماری اذانیں بند کرنے والے کتو اور درندو!
رشیدہ کے منہ سے گالیوں کا طوفان بہہ نکلا۔ لیڈر سکھ نے باقی سکھوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور خود اس پر تھپڑوں کی بارش شروع کر دی۔

raped girl

raped girl

تشدد کے باوجود اسے اصرار تھا کہ وہ رشیدہ ہے اور اسے اسکی ماں کے پاس یا پھر پاکستان پہنچایا جائے۔ تب لیڈر سکھ نے نہ صرف اسکی آبروریزی کی بلکہ اس عمل کے دوران اسے باور کراتا رہا کہ وہ اب رشیدہ نہیں پرکاش کور ہے کیونکہ اب وہ مسلمان نہیں سکھ ہے۔
تکلیف اور اذیت کے عالم میں ” لے کے رہیں گے پاکستان، جئے ہند اور ست سری کال کے نعرے بھی اسے ریپ کرتے رہے اور اسے اسکا نام یاد کراتے رہے۔ وہ چیخی چلائی تو لیڈر سکھ نے دھمکی دی کہ اگر وہ درست نہ ہوئی تو وہ اپنے گروہ کے باقی سات جوانوں کو بھی اندر مدعو کر لے گا۔ تب وہ نہایت بے بسی کیساتھ سسک پڑی اور درست ہو گئی اور اسے یقین آ گیا کہ اسکا نام رشیدہ نہیں پرکاش کور ہے اور پھر وہ سچ مچ پرکاش کور بن گئی۔ لیڈر سکھ سریندر سنگھ کی بیوی۔

اسکے اندر کی رشیدہ اس سے گزرے ہوئے، بھوگے ہوئے اور سنے ہوئے واقعات کی کوئی بات کرتی تو اسے سخت سے ڈانٹ دیتی۔ کسی نعرے کا مطلب پوچھتی تو اسے ٹوک دیتی۔ سکھوں کے دور میں مسلمانوں کی اذانوں پر پابندی کی بات ہو یا مغلیہ دور میں گورو گوبند سنگھ جی کے بچوں کے قتل کا واقعہ، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ہو یا پلیدستان۔ وہ تو اپنا مطلب اپنے معانی گم کر بیٹھی تھی۔ اسکے لیے اب ہر چیز بے معنی تھی۔ اس نے اپنی بے معنی زندگی سے سمجھوتہ کر لیا اور اس سمجھوتے نے بے معنویت سے ایک نئی معنویت پیدا کر دی۔ دو گھبرو بیٹے اور ایک خوبصورت بیٹی۔ لیکن وہ جب بھی اپنے ماحول سے مطمئن ہونے لگتی، اندر کی بے اطمینانی اور بڑھ جاتی۔ اطمینان اور بے اطمینانی کی اسی حالت میں زندگی کو جھیلتے، بھوگتے وہ بڑھاپے کی منزل تک آ گئی۔
تب یکایک ایک اور دھماکہ ہوا۔ زندگی کانپنے لگی۔

indira gandhi dead

indira gandhi dead

”اندرا گاندھی قتل ہو گئیں۔ ”
انتہا پسند ہندؤں کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ سکھوں کا قتل عام شروع ہو گیا۔ اسکے ذہن میں خوفناک وسوسے اور اندیشے سر اٹھانے لگے، وہ اپنے کمزور اور بوڑھے ہاتھوں سے اپنی جوان بیٹی کو مضبوطی سے تھامنے لگی۔ فسادات شدت اختیار کرنے لگے۔ سریندر سکھ سرکاری حفاظتی کیمپوں میں رہائش کا بندوبست کرنے گیا ہوا تھا۔ تب اسکے گھر کی دہلیز پر ہی اسکے دونوں جوان بیٹے قتل کر دیے گئے اور گھر کو آگ لگا دی گئی۔ وہ اپنی جوان بیٹی کو ساتھ لے کر گھر کی پچھلی طرف سے دیوار پھاند گئی۔ ابھی وہ چند قدم ہی آگے گئی ہوں گی کہ پیچھے سے للکار سنائی دی۔
” ٹھہرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کون ہو؟
” جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔۔۔وہ ہکلائی۔ سینتیس سال پہلے کا زمانہ پھر اسکے سامنے آ گیا۔
” کیا نام ہے تمہارا؟”
پرکاش کور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رشیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں رشیدہ
” جھوٹ بولتی ہو۔ تم مسلمان نہیں ہو۔ سکھ ہو۔”
” گورو کی سوگندھ۔ بھگوان کی قسم۔ میں رشیدہ ہوں اور یہ میری بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ چترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں اسکا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ پریشان ہو کر سوچنے لگی، سوچتی رہی، سوچتی رہی۔ اسکے سوچتے سوچتے اور دیکھتے دیکھتے سامنے کا منظر بدل چکا تھا۔ چترا ایک مکان کے کمرے میںمقید تھی اور وہ برآمدے میں بے بس بندھی کھڑی تھی۔ آٹھوں بدمعاش اسکی بیٹی کو باری باری ریپ کر رہے تھے۔ چترا بییہوش ہو چکی تھی مگر بلوائیوں کے انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی۔ اسکے ذہن میں سارے منظر، ساری تاریخ اتھل پتھل ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کی حالت ایسے انسان کیطرح تھی جس کے چاروں طرف الگ الگ موضوعات کی فلمیں پوری آواز کیساتھ چل رہی ہوں اور اسے کچھ بھی نہ سوجھ رہا ہو۔

old woman

old woman

اسے محسوس ہوا کہ اسکے سامنے چترا نہیں وہ خود پڑی ہوئی ہے اور وحشیوں کا یہ غول اسے اسکا نام یاد کرا رہا ہے۔ ہر آدمی اسے سریندر سنگھ نظر آتا ہے۔
رشیدہ نہیں پرکاش کور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرکاش کور نہیں رشیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسکا کوئی نام نہیں اور کوئی مذہب نہیں۔
وہ صرف ایک لڑکی ہے۔ ایک عورت ہے۔
یہی اسکا نام ہے۔
یہی اسکا مذہب ہے۔

تحریر:
حیدر قریشی