شو شو

marriage house

marriage house

گھر میں بڑی چہل پہل تھی تمام کمرے لڑکے لڑکیوں، بچے بچیوں اور عورتوں سے بھرے تھے اور وہ شور برپا ہو رہا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی اگر اس کمرے میں دو تین بچے اپنی ماؤں سے لپٹے دودھ پینے کیلئے بلبلا رہے ہیں تو دوسرے کمرے میں چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ڈھولکی لیے بے سری تانیں اڑا رہی ہیں۔ نہ تال کی خبر ہے نہ لے کی بس گائے جا رہی ہیں نیچے ڈیوڑھی سے لیکر بالائی منزل کی شہ نشینیوں تک مکان مہمانوں سے کچھا کچھ بھرا تھا۔
کیوں نہ ہو ایک مکان میں دو بیارہ رچے تھے میرے دونوں بھائی اپنی چاند سی دلہنیں بیاہ کر لائے تھے۔
رات کے گیارہ بجے کے لگ بھگ دونوں ڈولیاں آئیں اور گلی میں اسقدر شور برپا ہوا کہ الامان مگر وہ نظارہ بڑا روح افزا تھا جب گلی کی سب شوخ وشنگ لڑکیاں باہر نکل آئیں اور تیتریوں کیطرح ادھر ادھر پھڑپھڑانے لگیں۔
ساڑھیوں کی ریشمی سرسراہٹ، کلف لگی شلواروں کی کھڑکھڑاہٹ اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ ہوا میں تیرنی لگی۔ تمتماتے ہوئے مکھڑوں پر بار بار گرتی ہوئی لٹیں ننھے ننھے سینوں پر زور دیکر نکالی ہوئی بلند آوازیں اونچی ایڑھی کے بوٹوں پر تھرکتی ہوئی ٹانگیں لچکتی ہوئی انگلیاں، دھڑکتے ہوئے لہجے، پھڑکتی ہوئی رگیں اور پھر ان الہڑ لڑکیوں کی آپس میں سرگوشیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گلی کے پتھریلے فرش پر حسن و شباب اپنے قلم سے اپنے معنی لکھ رہا ہے۔

mehndi ki raat

mehndi ki raat

عباس میرے پاس کھڑا تھا ہم دونوں عورتوں کے ہجوم میں گھرے تھے دفعتاً عباس نے گلی کی نکڑ پر نظریں گاڑ کر کہا۔” شوشو کہاں ہے؟
میں نے جواب دیا” مجھے اسوقت تمہارے سوال کا جواب دینے کی فرصت نہیں ہے۔”
میں اس ہجوم میں اس بھنورے کی مانند کھڑا تھا جو پھولوں بھری کیاری دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ کس پھول پر بیٹھے۔
عباس نے رونی آواز میں کہا۔ وہ نہیں آئی۔
” تو کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی سب موجود ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو تو وہ نیلی ساڑھی میں کون ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوشو” میں نے عباس کا ہاتھ دبایا۔
عباس نے غور سے دیکھا ” نیلی ساڑھی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے مخصوص انداز میں میری طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ ” علاج کراؤ اپنی آنکھوں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چغد کہیں کے، یہ شوشو ہے؟
” کیوں وہ نہیں ہے کیا؟ میں نے نیلی ساڑھی کیطرف غور سے دیکھا اور ایسا کرتے ہوئے میری نگاہیں ایکا ایکی اس لڑکی کی نگاہوں سے ٹکرائیں کچھ اس طور پر کہ اس کو ایک دھکا سا لگا وہ سنبھلی اور فوراً ہی منہ سے لال جیب نکال کر میرا منہ چڑایا اپنی سہیلی میں کچھ کہا۔
اس سہیلی نے کن اکھیوں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
عباس نے جو اپنا اطمینان کرنے کیلئے ایکبار پھر اسکیطرف دیکھ رہا تھا۔ بلند آواز میں کہا” بخدا تم اسکی توہین کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گدھے کہیں کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت کے معاملے میں نرے احمق ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاٹھ کی کوئی پتلی نیلے رنگ میں لپیٹ کر تمہارے سامنے رکھ دی جائے تم اسی کی بلائیں لینا شروع کر دو گے۔
یہ الفاظ اتنی اونچی آواز میں ادا کیے گئے تھے کہ اس نیلی ساڑھی والی نے سن لیے جب وہ ہمارے پاس سے گزرنے لگی تو خودبخود ٹھٹھک ایک لخطے کیلئے اسکے قدم رکے گویا ہم میں سے کسی نے اسکو مخاطب کیا ہے پھر فوراً ہی اسکو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس احساس کی پیدا کی ہوئی خفت دور کرنے کیلئے اس نے یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا۔” ارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئینہ تو کہاں اڑ گئی؟
مجھے موقع ملا میں نے جھٹ سے عباس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے اچھی طرح دبا کر اس سے کہا۔” آپ سے ملکر بجھے بہت خوشی حاصل ہوئی مگر میرا نام محمد امین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نیل کنٹھ بھی کہتے ہیں۔

جل ہی تو گئی مگر ہم زیرلب مسکراتے آگے بڑھ گئے چند ہی قدم چلے ہونگے کہ عباس نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا۔” شوشو ابھی تک نہیں آئی۔”
تو میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سر پر نمدہ باندھ دیجیے تو میں ابھی سرکار کیلئے اسے تلاش کر کے لے آتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر یہ کیا حماقت ہے بھئی تم تماشا بھی دیکھنے دو گے کہ نہیں؟ اور پھر جناب یہ تو بتائیے اگر وہ یہاں موجود بھی ہو تو آپ اس سے ملاقات کیونکر کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کوئی امریکی ناول تو نہیں پڑھ رہے، کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہے۔”

عباس میری بات فوراً سمجھ گیا وہ اتنا بیوقوف نہیں تھا چنانچہ ہم دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے گلی سے نکل کر بازار میں چلے گئے موڑ پر رام بھرو سے پنواڑی کی دکان کھلی تھی وہ بجلی کے قمقمے کے نیچے سر جھکائے اونگھ رہا تھا۔ ہم نے اس سے دو پان پنوائے اور وہیں بازار میں کرسیوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔

pan shop

pan shop

دیر تک ہم ہندوستان میں مرد و عورت کے درمیان اجنبیت چلی آ رہی ہے اسکے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ جب ایک بج گیا تو عباس جمائی لیکر اٹھا اور کہنے لگا۔” بھئی اب نیند آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حسرت کو ساتھ لیے جا رہا ہوں کہ شوشو کو نہ دیکھ سکا سچ کہتا ہوں امین وہ لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اب تمہیں کیا بتاؤں کہ وہ کیا ہے؟
عباس نے اپنے گھر کا رخ کیا اور میں نے اپنے گھر کے راستے میں سوچتا رہا کہ عباس نے شوشو جیسی معمولی لڑکی میں ایسی کون سی غیر معمولی چیز دیکھی ہے جو ہر وقت اسکا ذکر کرتا رہتا ہے۔ عباس کے مذاق کے متعلق میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بڑا اونچا ہے مگر یہاں اسے کیا ہو گیا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے یہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو تین بار اسکا نام میری زبان پر آیا تو میں نے یوں محسوس کیا کہ پیپر منٹ کی گولیاں چوس رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایکدو مرتبہ آپ بھی دہرائیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کو لذت محسوس ہوئی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضرور ہوئی ہو گی مگر کیوں؟ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں عباس کی محبوبہ شوشو کے بارے میں خوامخواہ کیوں غور کرنے لگا ہوں اس میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیںجو غورافروز ہو مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ شوشو نام میں دلچسپی ضرور تھی اور کیا کہا تھا میں نے ، لذت بھی!
شوشو میں بانجو کے تھرکتے ہوئے تاروں کی جھنکار سی پائی جاتی تھی آپ یہ نام پکارئیے تو ایسا معلوم ہو گا کہ آپ نے کسی ساز کے تنے ہوئے تاروں پر زور سے گز پھیر دیا ہے۔
شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوشیلا کا دوسرا نام ہے یعنی اسکی بگڑی ہوئی شکل مگر اسکے باوجود اس میں کتنی موسیقی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوشیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوشیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غط۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوشیلا میں شوشو کی سی موسیقیت ہرگز نہیں ہو سکتی۔
فرنگی شاعر بائرن شکیل تھا مگر اس میں وہ کون سی شے تھی جو عورتوں کے سینے میں ہیجان برپا کر دیتی تھی؟ اسکا لنگڑا کر چلنا گریٹا گار بوقطعاً خوش شکل نہیں ہے مگر اس میں کون سی چیز ہے جو فلمی تماشائیوں پر جادو کا کام کرتی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ذرا بگڑے ہوئے انگریزی لہجے میں باتیں کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہے کہ بعض اوقات اچھی بھلی شے کو بگاڑنے سے اس میں حسن پیدا ہو جاتا
ہے؟

سوشیلا پندرہ سولہ برس کی ایک معمولی لڑکی ہے جو ہمارے پڑوس میں رہتی ہے اس عمر میں وہ ان تمام چیزوں کی مالک ہے جو عام نوجوانوں کے سینے میں ہلچل پیدا کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے مگر عباس کی نظروں میں یہ کوئی خوبی نہ تھی۔ عام نوجوانوں کیطرح عباس کا دل گھاس کی پتی کی مانند نہیں تھا جو ہوا کے ہلکے سے جھونکے کیساتھ ہی کانپنا شروع کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا جانے وہ اسکی کس ادا پر مرتا تھا جو میرے ذہن سے بالاتر تھی۔
میں نے سوشیلا کی شکل و صورت اور اسکی صناعانہ قدروقیمت کے متعلق کبھی غور نہیں کیا تھا مگر نہ جانے میں اس روز اسکے متعلق کیوں سوچتا رہا بار بار وہ میرے ذہن میں آ رہی تھی اور ہر بار میں سوشیلا کو چھوڑ کر اسکے مختصر نام شوشو کی موسیقی میں گم ہو جاتا تھا۔ انہی خیالات میںغرق گلی کے موڑ پر پہنچ گیا اور مجھے اس چیز کا احساس اسوقت ہوا جب میں نے دفعتاً وہاں کی فضا کو غیر معمولی طور پر خاموش پایا۔ مکان میری نظروں کے سامنے تھا اسکے باہر گلی کی دیوار کیساتھ ایک برقی قمقمہ لٹک رہا تھا جس کی چوندھیا دینے والی روشنی ساری گلی میں بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اس قمقمے کے ” تجرو” پر بڑا ترس آیا گلی بالکل سنسان تھی اور وہ قمقمہ متحیر سا معلوم ہوتا تھا۔

empty house

empty house

گھر میں داخل ہوا تو وہاں بھی خاموشی تھی البتہ کبھی کبھار کسی بچے کے رونے کی لرزاں صدا اور پرھ ساتھ ہی اسکی ماں کی خوب آلود آواز سنائی دیتی تھی۔ ڈیوڑھی کیساتھ والا کمرہ کھول کر میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ پاس ہی ٹپائی پر ” رومان ” پڑا تھا۔ اسکو اٹھا کر میں نے ورق گردانی شروع کر دی۔ ورق الٹتے الٹتے اختر کی غزل پر نظریں جم گئیں مطلع کس قدر حسین تھا۔
نہ بھولے گا تیرا راتوں کو شرماتے ہوئے آنا
رسیلی انکھڑیوں سے نیند برساتے ہوئے آنا
مجھے نیند آ گئی کلاک کیطرف دیکھا تو چھوٹی سوئی دو کے ہندسے کے پاس پہنچ چکی تھی اور اسکا اعلان کرنے کیلئے ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ ٹن ٹن ٹن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹن ٹن ٹن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹن
دو بج گئے۔ میں اٹھا اور سونے کے ارادے سے سیڑھیاں طے کر کے اپنی خوابگاہ میں پہنچا۔ بہار کے دن تھے اور موسم خشک میری خوابگاہ کی ایک کھڑکی کی باہر گلی کی طرف کھلتی ہے جس کے پیازی رنگ کے ریشمی پردے میں ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے بڑی پیاری لہریں پیدا کر رہے تھے۔
میں نے شب خوابی کا لباس پہنا اور سبز رنگ کا قمقمہ روشن کر کے بستر پر لیٹ گیا۔
میری پلکیں آپس میں ملنے لگیں ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں دھنکی ہوئی روئی کے بہت بڑے انبار میں دھنسا جا رہا ہوں۔ نیند اور بیداری کے درمیان صرف ایک لحظہ باقی رہ گیا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی کے بولنے کی گنگناہٹ آئی اس پر ملتی ہوئی پلکیں کھل گئیں اور میں نے غنودگی دور کرتے ہوئے غور سے سننا شروع کیا ساتھ والے کمرے میں کوئی بول رہا تھا یکایک کسی کی دلکش ہنسی کی مترنم آواز بلند ہوئی اور پھلجھڑی کے نورانی تاروں کے مانند پرسکوت فضا میں بکھر گئی۔
میں بستر پر سے اٹھا اور دروازے کیساتھ کان لگا کر کھڑا ہو گیا۔

boy at door

boy at door

” دونوں دلہنیں ماشاء اللہ بڑی خوبصورت ہیں”
” چندے آفتاب، چندے ماہتاب”
غالباً دو لڑکیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں انکے موضوع نے میری دلچسپی کو بڑھا دیا اور میں نے زیادہ غور سے سننا شروع کیا۔
” تلے والی ساڑھی میں نرگس کتنی بھلی معلوم ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ گورے گورے گالوں پر بکھری ہوئی مقیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی چاہتا تھا، بڑھ کر بلائیں لے لوں۔
” بچاری سمٹی جا رہی تھی۔”
” سر تو اٹھایا ہی نہیں اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” پر یہ شرم وحیا کب تک رہیگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوئی اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیسی باتیں کر رہی ہے۔ شوشو اسکیساتھ ہی کپڑے کی سرسراہٹ سنائی دی میرے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شوشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان میں سے ایک سوشیلا تھی میری دلچسپی اور بھی بڑھ گئی اور میں نے دروازے میں کوئی دراڑ ایک کواڑ کے نچلے تختے سے چھوٹی سی گانٹھ نکل گئی تھی اور اسطرح چونی کے برابر سوراخ پیدا ہو گیا تھا گھنٹوں کے بل بیٹھ کر میں نے آنکھ جما دی۔
شوشو قالین پر بیٹھی بسکٹی رنگ کی ساڑھی سے اپنی ننگی پنڈلی کو ڈھانک رہی تھی اسکے پاس ہی عفت شرمائی ہوئی سی گاؤ تکیے پر دونوں کہنیاں ٹیکے لیٹی تھی۔
” اسوقت ان گوری چٹی دلہنوں پر کیا بیت رہی ہو گی؟ شوشو یہ کہہ کر رک گئی اور اپنی آواز دبا کر اس نے عفت کی چوڑیوں کو چھیڑ کر ان میں کھنکھناہٹ پیدا کرتے ہوئے کہا، ” ذرا سوچو تو”؟
عفت کے گال ایک لمحے کیلئے تھرتھرائے” کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو شوشو”
” جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا ان باتوں سے دلچسپی ہی نہیں میری بنو کو بس میں ہو تو ابھی سے اپنی شادی رچا لو”
عفت نے سوشیلا کی بات کاٹ دی۔” پر یہ دلہنوں کو کہاں لے گئے ہیں شوشو؟
” کہاں لے گئے ہیں؟” شوشو مسکرائی، سمندر کی تہہ میں جہاں جل پریوں کا راج ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوہ قاف کے غاروں میں جہاں سینگوں والے جنگ رہتے ہیں۔”
چند لمحات کیلئے ایک پراسرار سکوت طاری رہا اسکے بعد شوشو پھر بولی، کہاں لے گے ہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لے گئے ہوں گے اپنے اپنے کمروں میں۔”
” بے چاریوں کو نیند کیسے آئیگی؟ ایک لڑکی جو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی اور جس کا نام میں نہیں جانتا تھا اپنا اندیشہ بیان کیا۔
شوشو کہنے لگی، بے چاریاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ذرا انکے دل سے جا کر پوچھے کہ انکی آنکھیں اس رت جگے کیلئے کتنی بیقرار تھیں۔”
” تو بہت خوش ہونگی؟
” اور کیا؟
پر میں نے سنا ہے کہ یہ لوگ بہت ستایا کرتے ہیں؟ عفت سوشیلا کے پاس سرک آئی۔
” میں پوچھتی ہوں تمہیں اندیشہ کس بات کا ہو رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تمہارے وہ ستانے لگیں گے تو نہ ستانے دینا انہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ پیر باندھ دینا انکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی سے فکر میں کیوں گھلی جا رہی ہو۔”
” ہائیں ہائیں” عفت نے تیزی سے کہا ” تم کیسی باتیں کر رہی شوشو، دیکھو میرا دل کتنے زور سے دھڑکنے لگا ہے؟ عفت نے سوشیلا کا ہاتھ اٹھا کر اپنے دل کے مقام پر رکھ دیا۔ ‘ کیوں”؟
شوشو نے عفت کے دل کی دھڑکنیں غور سے سنیں اور بڑے پراسرار لہجے میں کہا۔” جانتی ہو کیا کہہ رہا ہے؟ ”
عفت نے جواب دیا، نہیں تو؟
یہ کہتا ہے عفت بانو غزنوی دلہن بننا چاہتی ہے۔ ”
ہٹاؤ جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاج تو نہیں آتی تمہیں، عفت نے مسکرا کر کروٹ بدلی، دل اپنا چاہتا ہے تمہارا اور خواہ مخواہ، یہ سب کچھ میرے سر منڈھ رہی ہو، پھر یکایک اٹھ کھڑی ہوئی اور سوشیلا اسے پوچھنے لگی، ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بتاؤشوشو! تم بھلا کیسے آدمی سے شادی کرنا پسند کروگی؟ میرے سر کی قسم سچ سچ بتاؤ، مجھی کو ہائے ہائے کرو اگر جھوٹ بولو۔
میں کیوں بتاؤں؟ یہ کہہ کر سوشیلا نے تیزی سے اپنے سر کو حرکت دی اور اس کا چہرہ نگاہوں سے پوشیدہ تھا سامنے آ گیا۔ میں نے غور سے دیکھا وہ مجھے بے حد حسین معلوم ہوئی، آنکھیں مست تھیں اور ہونٹ تلوار کے تازہ زخم کے مانند کھلے ہوئے تھے۔ سر کے چند پریشان بال برقی روشنی سے منور فضا میں ناچ رہے تھے۔ چہرے کا گندمی رنگ نکھرا ہوا تھا اور سینہ جس پر سے ساڑھی کے پلو نیچے ڈھلک رہا تھا ہولے ہولے دھڑک رہا تھا۔ چوڑے ماتھے پر سرخ بندیا بڑی پیاری معلوم ہوتی تھی۔

عفت نے اصرار کیا۔ تمہیں میرے سر کی قسم بتاؤ”
شوشو نے کہا، پہلے تم بتاؤ۔
تو سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کسی سے کہو گی تو نہیں۔” یہ کہہ کر عفت کچھ شرما سی گئی” میں چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ میری شادی ایک ایسے نوجوان سے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوشو بولی۔ توبہ اب کہہ بھی دو۔
عفت نے پیشانی پر سے بال ہٹائے اور کہا، ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نوجوان سے ہو جس کا قد لمبا ہو جسم بڑے بھائی کیطرح سڈول ہو انگلینڈ ریٹرنڈ ہو، انگریزی فرفر بولتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ گورا اور نقش تیکھے ہوں موٹر چلانا جانتا ہو اور بیڈ منٹن بھی کھیلتا ہو۔”
شوشو نے پوچھا” بس کہہ چکیں؟
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عفت نے نیم والبوں سے سوشیلا کیطرف غور سے دیکھنا شروع کیا۔
میری دعا ہے کہ پرماتما تمہیں ایسا ہی پتی عطا فرمائیں۔ سوشیلا کا چہرہ بڑا سنجیدہ تھا اور لہجہ ایسا تھا جیسے مندر میں کوئی مقدس منتر پڑھ رہی ہے۔
وہ لڑکی جو اس گفتگو میں بہت کم حصہ لیتی تھی بولی” عفت! اب شوشو کی باری ہے۔”
عفت جو شوشو نے جواب دیا” سن کے کیا کروگی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیالات تم سے بالکل مختلف ہیں۔
” مختلف ہوں یا ملتے ہوں، پر ہم سنے بغیر نہیں چھوڑینگے۔”
” میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوشیلا نے چھت کیطرف دیکھا اور کچھ دیر خاموش رہنے کیبعد کہنے لگی، میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر تم مذاق اڑاؤ گی عفت!
ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم سناؤ تو؟
سوشیلا نے ایک آہ بھری
” میرے سپنے عجیب و غریب ہیں عفت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میرے دماغ میں صابن کے رنگ برنگے بلبلوں کیطرح پیدا ہوتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے ناچ کر غائب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سوچتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر سوچتی ہوں کہ میں کیا سوچا کرتی ہوں انسان جو چاہتا ہے اگر ہو جایا کرے تو کتنی اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر زندگی میں کیا رہ جائیگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہشیں اور تمنائیں کہاں سے پیدا ہونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جسطرح جی رہے ہیں ٹھیک ہے جانتی ہوں کہ جو کچھ مانگ رہی ہوں نہیں ملیگا مگر دل میں مانگ تو رہیگی کیا زندہ رہنے کیلئے یہی کافی نہیں؟
عفت اور دوسری لڑکی خاموش بیٹھی تھیں۔
شوشو نے پھر کہنا شروع کیا۔ میں اپنا جیون ساتھی ایک ایسے نوجوان کو بنانا چاہتی ہوں جو صرف عمر کے لحاظ سے ہی جوان نہ ہو بلکہ اسکا دل، اسکا دماغ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا رواں رواں جوان ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاعر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں شکل و صورت کی قائل نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے شاعر چاہیے جو میری محبت میں گرفتار ہو کے سر تا پا محبت بن جائے جسکو میری ہر بات میں حسن نظر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے ہر شعر میں میری اور صرف میری تصویر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو میری محبت کی گہرائیوں میں گم ہو جائے میں اسے ان تمام چیزوں کے بدلے میں اپنی نسوانیت کا وہ تحفہ دونگی جو آج تک کوئی عورت نہ دے سکی۔ ”

وہ خاموش ہو گئی عفت حیرت کے مارے اسکا منہ تکنے لگی اسکے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سوشیلا کی گفتگو کا کوئی مطلب نہیں سمجھ سکی میں خود متحیر تھا کہ پندرہ سولہ برس کی اس دبلی پتلی لڑکی کے سینے میں کیسے کیسے خیالات کروٹیں لے رہے ہیں اسکا ایک ایک لفظ میرے دماغ میں گونج رہا تھا۔
” اگر وہ مجھے نظر آ جائے” یہ کہہ کر سوشیلا آگے بڑھی اور عفت کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہنے لگی” تو میں اسکے استقبال کیلئے بڑھوں اور اسکے ہونٹوں پر وہ بوسہ دوں جو ایک زمانے سے میرے ہونٹوں کے نیچے جل رہا ہے۔ ”
اور شوشو نے عفت کے حیرت سے کھلے ہوئے ہونٹوں پر ہونٹ جما دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دیر تک انکو جمائے رکھا۔ تعجب ہے کہ عفت بالکل ساکت بیٹھی رہی اور معترض نہ ہوئی۔
جب دونوں کے لب ایک مدھم آواز کیساتھ جدا ہوئے اور انکے چہرے مجھے نظر آئے تو ایک عجیب وغریب نظارہ دیکھنے میں آیا جس کو الفاظ بیان ہی نہیں کر سکتے۔ عفت اس شہد کی مکھی کیطرح مسرور و متعجب معلوم ہوتی تھی جس نے پہلی مرتبہ پھول کی نازک پتیوں میں بیٹھ کر اسکا رس چومنے کی لذت محسوس کی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سوشیلا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اور زیادہ پراسرار ہو گئی تھی۔
آؤ اب سوئیں”

two girls sleeping together

two girls sleeping together

یہ خواب آلود اور دھیمی آواز عفت کی تھی اسکے ساتھ ہی کپڑوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی اور میں خیالات کے گہرے سمندر میں غوطہ لگا گیا۔
گندمی رنگ کی ننھی سی گڑیا، اپنے چھوٹے سے دماغ میں کیسے کیسے انوکھے خیالات کی پرورش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ کون سا تحفہ اپنے دامن نسوانیت میں چھپائے بیٹھی تھی جو آج تک کوئی عورت مرد کو پیش نہیں کر سکی؟
میں نے سوراخ میں سے دیکھا شوشو اور عفت دونوں ایکدوسری کے گلے میں بانہیں ڈالی سو رہی تھیں۔ شوشو کے چہرے پر بال بکھرے تھے اور اسکے سانس سے ان میں خفیف سا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا وہ کس قدر تروتازہ معلوم ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی وہ اس قابل تھی کہ اس پر شہر کیے جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن عباس تو شاعر نہیں تھا؟ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: سعادت حسن منٹو