صومالیہ: چار لاکھ بچوں کی زندگی خطرے میں

Somalia

Somalia

موگادیشو  کے بانادرہسپتال  کے بچوں کے وارڈ میں شیر خوار بچوں کا ہجوم ہے جو موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ہر روز دیہی علاقوں سے مزید خاندان  اپنے بیمار اور نحیف و نزار ہلاککو لیے ، غذا اور دواں کی تلاش میں دارالحکومت موگا دیشو پہنچ رہیہیں۔ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آنے والے تقریبا 200,000  افراد  یہاں عارضی کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا گذارہ مقامی بزنس کمیونٹی سے ملنے والی امداد پر ہے ۔گذشتہ ہفتے برطانیہ کے بین الاقوامی ترقی کے شعبے کے سکریٹری انڈریو میچل موگا دیشو پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ اتنے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے دنیا نے جو اقدامات کیے ہیں، وہ خطرناک حد تک نا کافی ہیں۔ انھوں نے عطیات دینے والے بین الاقوامی اداروں  سے کہا کہ وہ صومالیہ کے 400,000 بچوں کو  بچانے کے لیے ، جن کے بھوک سے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہے، تیزی سے کارروائی کریں۔مقامی لوگوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ امداد پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے۔ ڈنمارک کے ٹیلیویژن کے عملے نے حال ہی میں  موگا دیشو کی بندرگاہ میں اقوام ِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام  کے گودام تک رسائی حاصل کی۔  اس عملے  نے دکھایا کہ وہاں بڑی مقدار میں غذائی اشیا موجود ہیں۔صومالی صحافی محمد داہر کہتے ہیں کہ لوگوں میں یہ خیال عام ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام  کھانے پینے کی چیزوں کے ذخیرے لیے بیٹھا ہے جب کہ بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔غذائی اشیا بندرگاہ پر پڑ ی ہوئی ہیں۔ آ پ کو کہیں یہ چیزیں تقسیم ہوتی نظر نہیں آئیں گی ۔ آپ دس روز سے موگادیشو میں ہوں تو بھی ورلڈ فوڈ پروگرام کا کوئی عہدے دار نظر نہیں آئے گا۔ وہ آپ کو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے عہدے دار کہتے ہیں  کہ  وہ سامان پہنچانے کا محفوظ اور موثر نظام بنانے کے لیے پوری رفتار سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن  ترجمان سوزینا نیکول نے کہا کہ  القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند گروپ الشباب نے برسوں سے خوف و دہشت کا جو ماحول پیدا کر رکھا تھا، اس کی وجہ سے بیشتر امدادی ایجنسیاں اپنی صومالیہ کی کارروائیاں ختم کرنے پر مجبور ہو گئیں۔اب جب کہ الشباب  موگا دیشو سے پسپا ہو گئی ہے، تو  سامان کی ڈلیوری کے انتظامات کیے جا رہے ہیں لیکن یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے کہ  کام کرنے والوں کو خاصی دشواری پیش آ رہی ہے۔ یہاں پہنچنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس سے نمٹنا آسان نہیں۔ ہمیں حالات کو قابو میں رکھتے ہوئے ، ان لوگوں تک پہنچنا ہوتا ہے جنہیں امداد کی ضرورت  ہے، اور اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ ہم یہ کام محفوظ انداز سے اور کم سے کم خطرہ مول لیتے ہوئے کریں۔مقامی امدادی گروپ کہتیہیں کہ صومالیہ میں انسانی مصائب اتنے زیادہ شدید ہیں کہ مغربی امدادی تنظیموں کو زیادہ خطرہ قبول کر لینا چاہیئے ۔  موگادیشو کے میئر محمد احمد نور کہتے ہیں کہ یہ کہنا مضحکہ خیز بات ہے کہ قحط کا علاقہ غذا کی تقسیم کے لیے خطرناک ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ورلڈ فوڈ پروگرام جیسے گروپوں کو  اپنی نظریاتی  عینکیں ایک طرف رکھ دینی چاہئیں، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی اسلامی تنظیموں سے  تعاون شروع کرنا چاہیئے، ان تنظیموں کے ساتھ بھی جن کے بارے میں انتہا پسندوں سے رابطوں کا  شبہ ہو۔محمد انور نور نیکہاصومالیہ کے مصیبت زدہ لوگوں کے نام پر یہ لوگ کافی پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ اگر یہ پیسہ وقت پر ضرورت مندوں تک نہ پہنچ سکے تو یہ بیکار ہے۔ اگر عرب ایجنسیاں اور عرب ہلالِ احمر امدادی سامان تقسیم کر سکتی ہیں تو یہ ایجنسیاں کیوں نہیں کر سکتیں؟ وہی کام یہ کیوں نہیں کر سکتیں؟  کیا یہ کوئی خاص لوگ ہیں؟ورلڈ فوڈ پروگرام کی سوزینا نیکول کہتی ہیں کہ ہم تمام متبادل طریقوں پر غور کر رہے ہیں۔ امدادی تنظیمیں لوگوں تک غذا پہنچانے کے طریقے معلوم کر رہی ہیں۔ ان میں اسلامی ایجنسیوں  کے ساتھ مل کر کام کرنا بھی شامل ہے ۔انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی ایک اور اعلی عہدے دار مرثی کور کی کاسینڈرا نیلسن کہتی ہیں کہ امدادی تنظیموں کو صومالیہ  کے لوگوں سے ہمدردی ہے جو اپنے بچوں کو مرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ امدادی ایجنسیوں کو خطرات پر اچھی طرح غور کرنا چاہیئے ۔ بہت زیادہ عجلت سے، ہماری تنظیموں سمیت، کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔