عاشورہ محرم الحرام اور اتحاد بین المسلمین

Nouman Qadir Mustafai

Nouman Qadir Mustafai

نوٹ ! عاشورہ محرم الحرام کے خصوصی ایڈیشن کے لیے خصوصی تحریر شائع فر ما کر شکریہ کا موقع دیں
برپا ہے آج ذکرِ شبیر ہر طرف
سایہ فگن ہے چادر تطہیر ہر طرف
شبیر کے یہ آخری سجدے کی دین ہے
گونجا ہے آج نعرہ تکبیر ہر طرف
اسلام کے چراغ میں خونِ حسین ہے
چھائی ہے ظلمتوں میں جو تنویر ہر طرف
ذکرحسین سی کبھی لذت نہ پائو گے
ہوتی رہیں گی یوں تو تقاریر ہر طرف
زینب اگر نہ ہوتیں اسیروں کے ساتھ ساتھ
ہوتی نہ کبھی دین کی تشہیر ہر طرف
حق تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا کے بعد
دین ِ نبی کی بڑھ گئی توقیر ہر طرف
ان کا خیال ان کی طلب ان کی آرزو
قادر کے ذہن مین و دل میں ہیں شبیر ہر طرف
دراصل کر بلا کا درس ہی یذیدی افکار کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ہے جو قومیں ”درسِ کربلا ” کو بھلا دیتی ہیں وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتی رہتی ہیں اور خجالت و رسوائی اُن کا مقدر بن جاتی ہے آج قوم کے حصوں بخروں میں تقسیم کا سبب ہی یہی ہے کہ وہ امام عالی ٰ مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پیغام سے رو گردانی کر رہی ہے ،برسوں سے وطن عزیز میں ایک رُحجان چلا آرہا ہے اور ہر بار یہ رُحجان پُختہ تر ہوتا جا رہا ہے کہ جونہی محرم الحرام کی آمد ہوتی ہے تو ایک غیر معمولی اور ہنگا می نوعیت کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جس طرح بجٹ کی آمد سے قبل اشیاء کی قلت ، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔

اس طرح محرم الحرام کے آ غاز میں مذہبی فضا میں تناؤ اور کھچائو سا آ جاتا ہے حکومت کی طرف سے بعض علماء کی زبان بندی ، بعض علماء پر دوسرے علاقوں میں جا نے کی ممانعت ، دفعہ 144کا نفاذ اور انتظامیہ کو الرٹ کر دینے کے احکا مات جا ری کر دئیے جاتے ہیں امن کمیٹیاں بننا شروع ہو جاتی ہیں ان کے اجلاسز کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور دیو بندی وشیعہ فرقوں کے درمیان دھمکی آ میز بیانات کی یلغار ہو جاتی ہے یہ رُحجان کم از کم ایک سادہ اور عام مسلمان کے لیے نا قابل فہم اور انتہائی تعجب انگیز ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب یا طو فان آ رہا ہے جس کی پیش بندی کے یہ سارے منصوبے اور سا مان ہو رہے ہیں اگر بند نہ باندھے گئے ، پُشتے مضبوط نہ کیے گئے ، کٹاؤ کے انتظامات نہ کیے گئے اور بہاؤ کے رُخ نہ متعین کیے گئے تو خدانخواستہ بڑی تباہی مچ سکتی ہے۔

آ خر محرم الحرام میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس کی سادہ سی وجہ فرقہ واریت ہے جس کے زہر نے ذہنوں کو آلودہ اور جس کی نفرت نے دلوں کو کبیدہ کر رکھا ہے اور وہ ایام اور مواقع جو کسی قوم کے لیے ذریعہ اتحاد ، س مایہ افتخار اور طرہ امتیاز ہوتے ہیں ، الٹا موجب افتراق ، باعث ِ فساد اور وجہ نزع بن جاتے ہیں حالانکہ کوئی با دنی تعمق دیکھے تو عا شورہ محرم الحرام تاریخ اسلام کا ایک درد ناک باب ہے اور غم آگیں ورق !دنیا کا دستور ہے کہ غم اور دکھ کے موقع پر برادریوں میں اختلاف ہو بھی تو وقتی طور پر ختم ہو جا تا ہے اور ہر فرد دکھ درد میں شریک ہو تا ہے مگر ہمارے یہاں اس لمحہ الم میں پہلے سے بھی زیادہ اختلاف رونما ہو جا تا ہے اور دلوں کی دوریاں اور بڑھ جاتی ہیں اس نا خوشگوار کیفیت کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں جن کا گہرا علمی اور تاریخی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تاہم با دی النظر میں اس نفرت کو ختم کرنے کے مندر جہ ذیل طریقے ہیں۔

1 ہمارے فرقہ وارانہ ذوق نے ہماری ملی اور تاریخی شخصیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم ان شخصیات کے آ فاقی کردار کو اپنے گروہی دائرے میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے در میان ان شخصیات کے حوالے سے ایک طرح کی کشمکش اُبھر آ تی ہے انہی میں ایک مظلوم ہستی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہے حا لانکہ سانحہ کر بلا محض ایک واقعہ نہیں تاریخ کا مستقل اور مسلسل کردار ہے جب تک نوع ِ انسانی کے درمیان حق اور باطل ، خیر و شر ،ظالم اور مظلوم کی آ ویزش رہے گی سانحہ کربلا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ایک قومی علامت کے طور پر انسا نیت کو حق اور خیر کے لیے ظلم کے خلاف جدوجہد کا درس دیتے رہیں گے ، مگر بد قسمتی سے ہم نے اس واقعہ کو شیعہ ، دیو بندی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے سب سے پہلے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے تب مفاہمت کی فضا پیدا ہو گی

2۔ ایک اُلجھن یہ بھی ہے کہ ہم غمِ حسین رضی اللہ عنہ کا اظہار کم کرتے اور اسے اپنے مسلک کا شعار زیادہ بناتے ہیں چنانچہ اس ذہنیت کے نتیجے میں اس دوران تصادم کے کئی مراحل آ جاتے ہیں پھر مسئلہ کربلا کا نہیں رہتا اپنے دھڑے کی بقا اور انا کا ہو جاتا ہے ظاہر ہے جہاں ان کا ٹکرائو ہو گا وہاں سے خیر اور محبت کیسے بر آ مد ہو گی ؟

3۔اس سلسلے میں ایک سبب اور بھی قابل توجہ ہے کہ ہم بظاہر امام حسین رضی اللہ عنہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے جلسہ اور جلوس کا اہتمام کرتے ہیں مگر دراصل بلاتے ان لوگوں کو ہیں جن کی اپنی بقا اور گزراں اسوہ حسینی سے وابستہ نہیں بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر تفرقے سے منسلک ہو تی ہے پیشہ ورذاکر اور فرقہ پرست واعظ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور قربانی کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا انہوں نے یہ سب کچھ اسلام کی با دستی اور وحدت ملی کو قائم رکھنے کے لیے نہیں بلکہ کسی ایک گروہ کی سر بلندی اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے قربانی دی ، حالانکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ جہاد کسی فقہی ، فروعی اور جزئی مسئلے کے لیے نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنے خون سے خلافت راشدہ اور ملوکیت کے در میان حد فاصل کھینچ دی اگر ایسا نہ ہوتا تو امت کے لیے یہ جاننا مشکل ہو جاتا کہ اسلام کا اصل سر چشمہ مسجد نبوی ہے یا شام کے محلات !شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کا یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے امت کو فکری یکسوئی عطا کر کے ذہنی انتشار سے بچا لیا ، چنانچہ آج تک حکمرانوں نے عوام کوبے شمار دھوکے دئیے اور لوگوں نے دھوکے کھائے مگر اسلام کے مثالی نظام پر دو آرا نہیں ہیں اور کوئی حکمران اپنی ملوکیت ، مو روثیت اور آمریت کو خلافت راشدہ کا متبادل نہ تو ثابت کر سکا اور نہ عوام سے منوا سکا ، گو یا عاشورہ محرم الحرام امت وحدت رائے کو قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ، مگر ہماری گروہی عصبیت نے اس کی قدر نہ جانی.

4۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی بد اعما لیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بڑی نا روا جسارت کرتے ہوئے اصحاب ِ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ، اور اہل بیتِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ہے حالانکہ یہ حریف نہیں ایک دوسرے کے جگری حلیف ہیں ، آلِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اظہار عقیدت کا مطلب اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے گریز نہیں اور اصحابِ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا احترام آلِ نبی کے احترام کے منافی نہیں لیکن ہر چیز کے اظہار کا ایک موقع ہوتا ہے اور کسی چیز کو اس کے اصل محل اور موقع سے ہٹا دینے کو عربی میں ظلم کہتے ہیں اور ہم برابر اس ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں جس قوم کے ہاتھ میں میزانِ عدل نہ رہے قدرت اس قوم کی معاشرت کو اعتدال سے محروم کر دیتی ہے اور اس محرومی نے ہمیں ایک دوسرے کی بات سُننے اور جذ بات سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔

5۔آ خر میں ایک بنیادی سبب کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ مختلف مسلک اور مشرب اسلام کی منشاء کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے وجود میں آئے مگر ہم نے ان مسالک اور مکاتب کو ذریعہ نہیں اصل سمجھ لیا ہے اور درمیان سے اسلام کا جوہری رشتہ کمزور پڑ گیا ہے ، گروہی شناخت نے اسلام کے آ فاقی تعارف پر غلبہ پا لیا ہے اور ہم نےاس غلطی کو ماننے کی بجائے بڑی شخصیات کی آڑ میں اور بھاری بھر کم اصطلاحوں کے پردے میں اور مقدس ناموں کے دامن میں چھپا کر اس کو غلطی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے عین اسلام اور حق سمجھ لیا ہے جس کے منفی اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے اور زہر ناک ہوتے جا رہے ہیں قومیتی ،لسانی ، صو بائی اور علاقائی عصبیتوں کے ساتھ مذہبی منافرت نے ہمارا ملی وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے لیے ہمیں اپنے طرزِ عمل پر از سرِ غور کرنا پڑے گا۔

Muharram Ul Haram

Muharram Ul Haram

حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شب عاشور کو جو خطبہ ارشاد فر مایا تھا اُس کا اقتباس بھی درج کیے دیتا ہوں تاکہ دنیا والوں کو معلوم ہو جائے کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کا لہجہ آمرانہ نہیں بلکہ جمہوری تھا فر مایا ”کیا تم کو نظر نہیں آتا کہ حق کا اب دور دورہ نہیں رہا کیا تم کو یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ اس دور میں غلطیوں اور گناہ پر کوئی نادم نہیں ہوتا ، سچا ایمان والا وہی ہے جو حق پر گامزن ہو اور بے خوف و خطر اپنے پر ور دگار کی بارگاہ میں حاضر رہے میرے لیے (حق کے لیے ) موت نہیں ، بلکہ شہادت ہے کیونکہ ظلم کے سائے میں جینا اور زندہ رہنا باعث شرم و باعث ذلت ہے ” یہ وہ تقریر ہے جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے اپنے اصحاب و اقربا ء کو کی تھی اور پھر اس کے بعد امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھہ نے شمع بجھا کے کہا تھا کہ ”جو میرے خیالات سے متفق ہو وہ جام ِ شہادت نوش کرنے کو میرے ساتھ ٹھہر سکتا ہے اور جو میری باتوں سے متفق نہ ہو وہ اس رات کے اندھیرے میں جا سکتا ہے۔

اس ماہ محرم الحرام میں امام حسین کی تقریر کے اقتباس اس لیے درج کیے ہیں کہ ان کی اہمیت و افادیت آج بھی وہی ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھی کہ جب امام حسین نے یذیدی فوج کے نرغے میں یہ تقریر کی تھی ، اب امام حسین کی جنگ کو ذاتی مفادات کی جنگ کہنے والے نام نہا د ”دانشور ” اگر تعصب کی عینک اُتار کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو سب کچھ اُن پر آشکار ہو جائے گا کہ مفادات کی جنگ لڑنے والے اپنے اصحاب و اقرباء کو یوں بے آب و گیاہ صحرا میں نہیں لے جاتے ؟عاشورہ محرم الحرام ایسے ایام در حقیقت ہمیں غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ اصول اور فروع کے درمیان فرق کیا جائے دین اور فقوں کی صحیح نوعیت سمجھی جائے ملی مفاد اور گروہی مفاد کے تقدم اور تاخیر کا ادراک حاصل کیا جائے اہم اور غیر اہم با توں کے درمیان حد قائم کی جائے اور ہر مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں رکھ کر فیصلہ کرنے اور رویہ اپنا نے کی شعوری کوشش کی جائے یہ وہ مختصر سی باتیں ہیں اگر دل و دماغ انہیں قبول کر لیں تو محرم الحرام نہ صرف امن کے ساتھ گزر سکتا ہے بلکہ اُمت کے لیے امن کی بنیاد بن سکتا ہے ، لہذا آئیے ! اس مقدس اور تاریخ کے انوکھے یوم ، یوم ِ عاشورہ کے موقع پر عہد کریں کہ ہم نے محبتوں کو فروغ دینا ہے ، امن کی مالا جپنا ہے ، اخوت کا پر چار کرنا ہے تاکہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فر مائے (آمین)۔

تحریر : نعمان قادر مصطفائی