عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے لرزتے ستون

protest

protest

وکی پیڈیا کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام یا کیپٹل ازم سے مراد ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عامل ِپیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے،اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے،اِس نظام میں امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام نظریاتی طور پر ایک آزاد منڈی کا تصور پیش کرتا ہے مگر حقیقتا منڈی کبھی بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی،اِسی طرح جملہ حقوق،منافع خوری اور نجی ملکیت اِس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے،آج جدید دانشوروں کا خیال ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں،اِس کی تازہ مثال17 ستمبر سے شروع ہونے والی وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک ہے،ایک ماہ قبل نیویارک میں معیشت کے مرکز وال اسٹریٹ سے شروع ہونے والا احتجاج آج دنیا کے پانچ براعظموں تک پھیل چکا ہے،جبکہ امریکہ کے 90 شہر اِس احتجاجی تحریک کی لپیٹ میں ہیں،دوسری جانب برطانیہ،جرمنی،یونان،سپین،پرتگال،آئرلینڈ،اٹلی،جاپان، جنوبی کوریا،ہانگ کانگ، ملائیشیا، تائیوان، نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت دنیا کے 82 ممالک کے 951 شہروں میں لاکھوں افراد ہم عالمی تبدیلی چاہتے ہیں کے نعرے لگاتے ہوئے ریلیوں،دھرنوں اور مظاہروں کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں،لوگ سرمایہ دارانہ نظام، غربت،عدم مساوات،نسلی امتیاز، جوہری توانائی سمیت دیگر سماجی خرابیوں کے خلاف سڑکوں پر مورچہ زن ہیں ۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ امیر،غریب اور متوسط طبقے کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے،جبکہ سڈنی،میکسیکو ،چلی، ارجنٹینا، ایتھنز، برلن، ٹوکیو اور ہانگ کانگ میں بھی ہزاروں افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا،عالمی امن اور حقوق انسانی کے نام نہاد ٹھیکدار امریکہ میں یہ تحریک اب پرتشدد مظاہروں کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اورحکومتی کریک ڈان اور سینکڑوں افراد کی گرفتاریوں کے باوجود اِس تحریک کے بھڑکتے شعلے وائٹ ہاوس کی جانب لپکتے نظر آ رہے ہیں،جبکہ اٹلی کے دارالحکومت روم میں احتجاج نے ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی ہے،روم کی گلیاں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی ہیں،دوسری جانب اعظم ایشیا،یورپ،شمالی امریکہ،افریقہ اور آسٹریلیا میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر آ کر معاشی ناہمواریوں،عدم مساوات اورجنگ و جدل پر مبنی امریکی پالیسی کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے وال اسٹریٹ تحریک کے شرکا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں،کینیڈا کے مختلف شہروں میں بھی کارپوریٹس کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا،ملائیشیا کے لوگ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اکٹھے ہوگئے ہیں،جبکہ پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں 50 ہزار سے زائد افراد آئی ایم ایف اور یورپی یونین کے بچت پروگرام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے،یہ لوگ اپنی اِس تحریک کو انٹرنیٹ پر ٹوئٹر اور فیس بک سمیت سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس کے ذریعے بھی منظم کررہے ہیں،تحریک کے منتظمین نے ایک ویب سائٹ پر جاری پیغام جاری میں کہاہے کہ ہمارے احتجاج کا مقصد اِس عالمگیر تبدیلی کی بنیاد رکھنا ہے جو ہم چاہتے ہیں ۔ آج دنیا بھر میں جاری اِن احتجاجی مظاہروں سے سامراجی استحصالی نظام اور یہودیت کے زیر اثر امریکی جنگی جنونی پالیسیوں کے خلاف ایک ایسا عالمی انقلاب ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے جو سرمایہ داری کی بنیاد پر استوار کئے گئے اِس نظام اور اِس کے پیرو کاروں سمیت اقتصادی اور سماجی ناہمواریوں کا باعث بننے والی ہر چیزکو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جانے کیلئے بے تاب ہے،طوفانی بگولے کی شکل اختیار کر تی تحریک کا ابھرتا ہوا منظر نامہ عرب ممالک میں امریکی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تحریکوں کو بھی مات دیتا نظر آ رہا ہے،امر واقعہ یہ ہے کہ عالمی کساد بازاری کی حالیہ لہر کے نتیجے میں لا کھوں افراد کے بے روزگار ہونے کے بعد متبادل عالمی مالیاتی نظام کیلئے آوازیں اِس بار جتنی شدت سے اٹھنا شروع ہوئی ہیں،اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، اِس بار یہ آوازیں کسی مسلم یا سوشلسٹ معاشرے سے نہیں بلکہ سرمایہ داری اور مغربی تہذیبی مراکز سے ابھر رہی ہیں اوریہ ابھرتی ہوئی آوازیں لفظ عالمگیریت کے حجاب کو استعمال کرنے کے بجائے براہ راست صورتحال کا ذمہ دار عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیتے ہوئے اِس کے خاتمے کا مطالبہ کررہی ہیں،حتی کہ مین ہٹن،نیویارک کیوال اسٹریٹ جہاں سے بوڑروا طبقے نے دنیا کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں کسنے کا آغازکیا تھا،میں بھی سینکڑوں افراد نے کساد بازی کی لہر اور امریکہ میں لاکھوں افراد کی بے روزگاری کا ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام میں مضمر خرابیوں کو قرار دیا ہے،اِن سب کی زبان پر ایک ہی شکایت ہے کہ حکومت نے بینکوں کو بھرپور منافع کمانے کا موقع دیا جس سے بے روزگاری بڑھی،روزبروز بڑھتے ہوئے مظاہروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں طبقاتی کشمکش نے اتنی شدت اختیار کرلی ہے کہ اِس سے خانہ جنگی کے خدشات بڑھ گئے ہیں ۔ اِس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سابق امریکی صدر جمی کا رٹر کہتے ہیں کہ مجھے بہت زیادہ تشویش اِس بات کی ہے کہ امریکہ کس سمت جا رہا ہے،وہ کہتے ہیں کہ موجودہ دور امریکہ کا تا ریخ میں انتہائی خراب دور ہے کہ عراق اور افغانستان میں اتنی زیادہ رقم خرچ کی گئی جس سے امریکیوں کا معیار زندگی مسلسل گر تا جارہا ہے،جمی کارٹر کہتے ہیں کہ امریکہ ایران سے تو یہ مطالبہ کررہا ہے کہ وہ اٹیمی ہتھیار بنا رہا ہے،لیکن اِس کے بر عکس خود امریکہ کے پاس 70 ہزار ہتھیار ہیں،جمی کارٹر کا خیال ہے کہ امریکہ نے سفارت کاری کی جگہ تشدد بندوق اور گو لی کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔امریکہ میں آج معاشی ناہمواری کا یہ عالم ہے کہ ملک کی 40 فیصد دولت ایک فیصد آبادی والے طبقے کے ہاتھ میں مرکوز ہوکر رہ گئی ہے،طرفہ تماشہ دیکھئے کہ غربت کے باعث انتہا پسندی کے جنم لینے کی پھبتی کسنے والا امریکہ آج خود اِسی مرض میں مبتلا نظر آرہا ہے،حالانکہ اس نے اپنے معاشرے میں طبقاتی استحصال سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے بیسویں صدی کے چار عشروں تک ان کے سامنے سوویت یونین کا ہوا کھڑا کئے رکھا اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسلامی بنیاد پرستی، عسکریت پسندی اورانتہاپسندی کو مغربی تہذیب کیلئے خطرہ قرار دے کر انہیں جنگی جنون میں مبتلا کردیا،مگر یہودی ساہوکاروں کی سودی رقم پر پلنے والے صلیبی قزاقوں اور لٹیروں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ انہوں نے افغانستان کے قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے جتنی دولت کمانے کا منصوبہ بنایا تھا اس سے کہیں زیادہ رقم انہیں اِس لاحاصل جنگ پر صرف کرنا پڑے گی اور وہ خسارے میں رہیں گے ۔ آج بین اقوامی تعلقات عامہ اور سیاسیات کے ماہرین امریکہ کی نام نہاد دہشت گر دی اور انتہا پسندی کی جنگ کی بہت ساری وجوہات بیان کرتے ہیں جس میں مغربی ممالک کی مسلم دشمنی،اسلام اور سو شلزم سے خائف ہونا،غربت،وسطی ایشیائی ریاستوں کے 5 کھرب ڈالر کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی کو شش اور روس کے زوال کے بعد امریکہ کا پورے علاقے کا دادا گیر بننا شامل ہے،مگر اِس کے علاوہ بھی بعض وجوہات ایسی ہیں جس کی وجہ سے امریکہ دہشت گر دی اور انتہاپسندی کی جنگ کی طر ف مائل ہے،جس میں دنیا کے مختلف علاقوں میں کشید گی اور جنگی کیفیت پیدا کر کے اسلحہ بیچنا اور انحطاط و زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ کرنا بھی شامل ہے،آج کل پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہے امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک اور دنیاکی 600 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاس دنیا کی 60 فیصد اقتصادیات ہے،ان کی پو ری کو شش ہے کہ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم پر مبنی اِس سامراجی نظام کو ہر حالت میں بچایا جائے،امریکہ اور اس کے اتحادی یو رپی ممالک چاہتے ہیں کہ اس آمرانہ سرمایہ دارانہ نظام کو ریاستوں اور ممالک کو آپس میں الجھا کر اور لڑاکر زندہ رکھا جائے،اگر ان تمام عوامل کو مد نظر رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام،سوشلزم اور کمیو نزم کے خلاف دہشت گر دی اور انتہا پسندی کی نام نہاد جنگ کی شکل میں بر سر پیکار ہے،مگر امریکی مالیاتی بحران کے زلزلے نے پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کی چولیں ہلا دی ہیں اور مالیاتی بحران کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے ستون لرزنے لگے ہیں،حال یہ ہے کہ دنیا کی مالیاتی مارکیٹوں سے 30 ہزار ارب ڈالر کے مساوی اثاثے تحلیل ہوکر رہ گئے ہیں،بڑے بڑے مالیاتی ادارے اور بینک زمین بوس ہوگئے،یورپ،امریکہ اور جاپان میں بیروزگاری کی شرح 5 سے9 فیصد تک جا پہنچی،عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم ستون جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد شدید ترین مالیاتی بحران،بے روزگاری اور کساد بازاری کا شکار ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سورج کو سودی گہن لگ چکا ہے اور اِس کی چکاچوند ماند پڑ چکی ہے،عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا معاشی بلبلہ پھٹنے سے دنیا بھر میں غربت،بے روزگاری،بدامنی،بھوک و افلاس کی تاریکی بڑھ رہی ہے،دنیا کوعراق اور افغانستان جنگ کا تحفہ دینے والا امریکہ اب خود اس کے شعلوں میں جھلس رہا ہے اور بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی یہودیوں کی غالب اکثریت کے زیر تسلط آنے والی نیویارک کی وال سٹریٹ پر قبضے کی یہ تحریک جس تلخ پس منظر میں شروع ہوئی ہے،امریکی سامراج کیلئے اس کا نتیجہ اس سے زیادہ تلخ ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کو تہس نہس کر کے پوری دنیا پر تسلط اور قبضے کے خواب دیکھنے والی عالمی صہیونی قوتوں کی بساط لپیٹنے کیلئے کافی ہوسکتا ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ نے اپنی بے پناہ طاقت،جدید ایٹمی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے بل بوتے پر توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھاتے ہوئے جس طرح عالمی امن و سلامتی کو تاراج کیا اور مسلم ممالک پر اپنا تسلط جمایا ہے،اس کا جلد یا بدیر یہی نتیجہ سامنے آنا تھا،جو آج پوری دنیا میں پھیلتی ہوئی  وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو تحریک کی صورت میں استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے پیروکاروں کو بھگتنا پڑ رہا ہے،آج اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے سرمایہ داری کو اپنے ہی خالق نظریات سے متصادم کردیا ہے،عالمی سطح پر امریکہ اور اسرائیل کے سرمایہ دارانہ نظام کا مشاہدہ اِس نظام کی مکمل شکست و ناکامی کا غماز ہے،موجودہ عوامی درعمل ثابت کرتا ہے کہ یہ تجربہ قطعی طور پر ناکام ہوگیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت جلد امریکہ اور اس کے مفاد پرست حواریوں کے سرمایہ دارانہ بت پاش پاش ہوجانے والے ہیں،کیونکہ مردان خدا مست برسوں پہلے یہ پیشنگوئی کرچکے ہیں کہایک وقت آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچا کیلئے پریشان ہوگا،سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لئے لرزہ براندام ہوگی،مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا،نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقدنہ پاسکے گی۔آج وہ وقت آچکاہے،کمیونزم ماسکو میں دفن ہوکر قصہ پارینہ بن چکاہے،مادہ پرست الحادلندن اور پیرس کی سڑکوں پر ذلیل و رسوا ہورہا ہے، نسل اور قوم پرستی برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد ڈھونڈتی پھررہی ہے،جبکہ سرمایہ دارانہ ڈیمو کریسی اپنی بقا کیلئے ہاتھ پاں مار رہی ہے،چنانچہ اِس تناظر میں ابھرنے والا منظر نامہ ہمارے ان ارباب اقتدار اور دولت پرست طبقوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو اپنے اس امریکی سرپرست جس کے اپنے ہاتھ سے اقتدار کی باگیں خشک اور بھر بھری ریت کی مانند آہستہ آہستہ پھسلتی جارہی ہے، پر تکیہ کئے پاکستان کی مظلوم عوام کا استحصال کررہے ہیں،شاید وہ یہ حقیقت بھول رہے ہیں کہ ہر وہ نظام جو غریب عوام کو لوٹنے، کچلنے اور استحصال کرنے پر مبنی ہوتا ہے کبھی بھی دیرپا اور پائیدار ثابت نہیں ہوتا ۔