عوامی توقعات

Lahore Imran Khan Jalsa

Lahore Imran Khan Jalsa

30 اکتوبر 2011 اور 23 دسمبر 2012 کے جلسے پاکستانی سیاست میں عوامی اندازِ سیاست کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گئے۔30 اکتوبر کو مینارِ پاکستان پر عمران خان کے جلسے نے سب کو حیران کر دیا تھا جبکہ 23 دسمبر کو مینارِ پاکستان پر تحریکِ منہاج القرآن کے چیرمین علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے میں لوگوں کی شرکت نے سب کو مبہوت کر دیا ہے۔ میں نے اس جلسے کی ویڈیو کلپنگ دیکھی ہیں اور مجھے یقین نہیں آرہا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری میاں محمد نواز شریف کے گھڑھ لاہور میں اتنا بڑا اجتماع کر سکتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے جو میرے ماننے یا نہ ماننے سے بدل نہیں سکتی۔

اس جلسے میں عوام کی شرکت شک و شبہ سے بالا تر تھی جو ایک خاص پیغام دے رہی تھی جس پر میں آئیندہ کالموں میں اظہارِ خیال کروں گا۔ سرِ دست تو اتنا کہنے پر اکتفاء کروں گا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے لیکن انھوں نے اپنے علم و فضل اور جہدِ مسلسل سے معاشرے میں اپنا منفرد مقام پیدا کیا ہے۔ ان سے کوئی لاکھ اختلاف کرتا رہے لیکن ان کے فنِ خطابت اور علمی وجاہت سے کسی کو بھی انکار کی مجال نہیں ہے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے جنرل ضیاء الحق کے زیرِ سایہ عوامی پذیرائی کا آغاز کیا جس میں میاں برادران نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو ہر طرح کا دستِ تعاون پیش کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری مقبولیت کی سیڑھیاں پھلانگتے چلے گئے۔

ان کے فنِ خطابت نے عوام کے دل موہ لئے اور ان کی نکتہ آفرینیوں نے ایک حشر برپا کر دیا۔ ہر گلی اور ہر محلے میں ان کے درسوں کے سلسلے شروع ہو گئے اور نوجوان نسل نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی صورت میں ایک ایسے مفکر کو دیکھنا شروع کر دیا جو انقلاب کا پیش خیمہ بن کر ان کا مقدر بدل سکتا ہے۔ علمی و جاہت اور شہرت جب یکجا ہو جائیں تو پھر انانیت کا خمار دل و دماغ پر قبضہ کرنے لگتا ہے اور ایسا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے معاملے میں بھی ہوا تھا اور ہونا بھی چائیے تھا کیونکہ اپنی فکری روشنی سے عوام الناس کو محروم رکھنا انسانیت کے ساتھ نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔1980 کی دہائی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی شہرت اور مقبولت کی دھائی تھی اور ایک بہت بڑے عالم، مفکر اور مبلغ کی حیثیت سے ان کا نام ہر سو گونج رہا تھا۔ لوگوں کے اذہان اور فکر کو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی شعلہ بیانی اور دلائل کی قوت سے اپنی مٹھی میں بند کر لیا تھا۔ مجھے بھی انھیں کئی دفعہ سننے کا موقعہ ملا تھا اور ہر بار انھوں نے نئے اور مختلف انداز میں اپنی علمی وجاہت کا ثبوت دیا تھا۔ ان کے پاس علم کا ایک ایسا سمندر ہے جس میں سے وہ جیسا چاہتے ہیں دلیل اور منطق کا گہرِ تابدار لے کر نمو دار ہو جاتے ہیں۔ اسی زمانے میں انھوں نے تحریکِ منہاج القرآن کی اساس رکھی تھی اور نوجوانوں کو نظامِ مصطفے کے ایک ایسے انقلاب کی نوید سنائی تھی جسے وہ برسوں اپنے سینوں میں پالتے چلے آرہے تھے۔ منہاج القرآن کی اساس نے ہی میاں محمد نواز شریف اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان فاصلوں کو جنم دیا۔

میاں محمد نواز شریف منہاج القرآن کی تشکیل سے اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ انھیں خبر تھی کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک دن اسی منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے انھیں للکاریں گئے اور ان کی لنکا میں آگ لگا دیں گئے۔ انھیں علم تھا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو خدا نے جس طرح فنِ خطابت کی خو بیوں سے نواز رکھاہے اس کی وجہ سے وہ دن کو رات اور رات کو دن بنانے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ منہاج القرآن کی سر گرمیوں کو سیاسی رنگ دینے سے اجتناب کریں۔ یہ درست ہے کہ ادارہ منہاج القرآن کیلئے زمین بھی میاں محمد نواز شریف نے ہی الاٹ کی تھی لیکن وہ منہاج القرآن کا دائرہ اختیار مذہبی امور تک ہی دیکھنا چاہتے تھے جبکہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے عزائم مختلف تھے اور وہ اپنی شہرت کے پسِ پردہ کچھ اور ہی دیکھ رہے تھے۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اقتدار کی جانب چھلانگ لگانے کا حق حاصل تھا لیکن میاں برادران کو یہ گوارا نہیں تھا۔

General Zia Ul Haq

General Zia Ul Haq

جنرل ضیاء الحق کی حیات میں تو سارے معاملات انتہائی رازداری ، دوستی ، افہام و تفہیم اور محبت سے سر انجام پاتے رہے لیکن جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد حالات نے ایک دم پلٹا کھا یا اور کل کے یہ دوست ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے ہو گئے۔ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوامی تحریک کے قیام کا اعلان کر کے میاں برادران کے اوسان خطا کر دئے۔ میاں برادران تو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے تبھی تو اسے پال پوس کر بڑا بنایا تھا۔ انھیں کیا خبر تھی کہ ایک دن انہی کا تیار کردہ پہلوان انھیں ہی کشتی کا چیلنج دے ڈالے گا۔

میاں برادران کو اپنی دولت وحشمت پر ناز تھا جسے اقتدار کی شراب نے اور بھی نشہ آور بنا دیا تھا ۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ ہے جس کی کل دولت اس کی وجاہتِ علمی ہے اور ویسے بھی علم اور دولت میں کبھی یکجائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ یہ ازل سے ایک دوسرے کے حریف ہیں۔دولت علم کی قوت سے خوف زدہ رہتی ہے جب کہ علم دولت کو پرِکاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ علم وارثِ پیغمبری ہوتا ہے لہذا اہلِ ثروت طبقے ہمیشہ قوتِ علم سے خائف رہتے ہیں۔ انھیں اہلِ علم کی جانب سے کسی ایسے انقلاب کا خوف ہمیشہ بے چین کئے رکھتا ہے جو ان سے نعمائے زندگی چھیننے کا موجب بن سکتا ہو۔ انھیں ہر اس انقلاب سے خوف آتا ہے جسے اہلِ علم ہستیاں گاہے بگاہے تاریخ کی نذر کرتی رہتی ہیں اور جن کے برپا ہو جانے سے اہلِ ہشم کا سارا جاہ و جلال اور قوت و حشمت خاک میں مل جاتی ہے۔

دنیا کے سارے انقلاب اہلِ نظر لوگوں کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ زارِ روس کے ظلم و جبر کے ہاتھوں تڑپتے ، سسکتے اور بلکتے عوام کی جدوجہد سے انقلابِ روس کا عظیم الشان معرکہ ہویا مائوزے تنگ کے ہاتھوں چیانگ کائی شیک کے فرار سے جنم لینے والے انقلاب چِین کی روداد ہویہ سب کچھ لینن اور ماؤزے تنگ نے اپنے وقت کے عظیم فلاسفر اور دانشور کا رل مارکس کی فکر سے مستعار لے کر دنیا میں انقلاب کو نئے معنی عطا کئے تھے۔ پاکستان کا تصور بھی تو ایک دانش ور کا پیش کردہ ہی تھا جسے سارے سیاست دانوں نے پہلے پہل رد کر دیا تھا لیکن یہ تو اس نظریے کی قوت تھی جس نے اسے زندہ رکھا تھا۔ اگر وہ کمزور نظریہ ہوتا تو سیاست دان اسے کب کا ہضم کر چکے ہوتے اور آج ہم متحدہ ہندوستان میں زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ علم ایک قدر ہے لیکن دولت کبھی بھی قدر کا مقام حاصل نہیں کر پائی اس لئے اہلِ علم حلقے اہلِ دولت کو اعلی و ارفع مقام دینے کیلئے راضی نہیں ہوتے ،علم اور دولت کے درمیان ازل سے ایک جنگ ہے جو خاموشی سے جاری و ساری رہتی ہے لیکن اکثر لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا اور وہ اس کی شدت کو محسوس بھی نہیں کرتے۔

Dr Tahir Ul Qadri

Dr Tahir Ul Qadri

عوامی تحریک کے قیام سے ہی وہ جنگ جو اندر ہی اندر سلگ رہی تھی جوالا مکھی بن کر سامنے آگئی ۔1990 کے انتخابات سر پر تھے اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادی نے ان میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا جس سے میاں برادران کی برداشت جواب دے گئی۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پر مسلح دستوں سے حملہ کر دیا گیا تا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور یوں میاں برادران کے ووٹ تقسیم ہونے سے بچ جائیں۔ ہماری سیاست کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی متوسط طبقے کا کوئی فرد سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کرتا ہے تو مخصوص سیاست دانوں کے پالتو غنڈے ان کا جینا دو بھر کریتے ہیں۔ ان پر مسلح حملے ہوتے ہیں ،انھیں رسوا کیا جاتا ہے اور ان کی تضحیک کی جاتی ہے اور کبھی کبھی انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھونے پڑتے ہیں۔ پیشہ ور سیاست دان ریاستی گٹھ جوڑ سے ایسی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے مفادات کو چیلنج کرتی ہے۔ علامہ ڈ اکٹر طاہر القادری کی آواز بھی ایسی ہی آواز تھی جس سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا لہذا ضروری تھا کہ اس آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر د یا جاتا یہ تو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی خوشبختی تھی کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اس حملے سے بال بال بچ گئے۔

ابھی تو پچھلے سال کی بات ہے راولپندی کے ضمنی انتخاب میں جب مسلم لیگ(ن) کی شکست کے امکانات واضح ہو رہے تھے تو اس وقت شیخ رشید کے دو ساتھیوں کو سرِ عام موت کی نیند سلا دیا گیا تھا لیکن نہ قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی مقدمہ قائم ہوا کیونکہ پنجاب میں میاں شہباز شریف کی حکومت تھی اور کس کی مجال تھی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف ایف آئی آر درج کرواتا اور اس میں میاں برادران کا نام لکھواتا ۔ وہ تو ذوالفقار علی بھٹو کی سادگی تھی جس نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے مخالفین کو اپنے خلاف ایف آئی آر میں اپنا نام لکھوانے کی اجازت دے دی تھی اگر ذولفقار علی بھٹو ایسا کرنے کی اجازت نہ دیتے تو پھر نہ مقدمہ قتل قائم ہوتا اور نہ ہی اس جرم کی پاداش میں انھیں سزائے موت سنائی جاتی۔ میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی ہمت کی داد دیتا ہوں کہ انھوں نے پسپائی اختیار کرنے کی بجائے ڈٹ جانے کو ترجیح دی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ حملہ بھی علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پر حملہ اور جھوٹا اور اور بد طینت بھی اسے ہی ٹھہرایا گیا جب کہ قاتلوں سے کوئی باز پرس نہ کی گئی۔

PMLN

PMLN

ساری دنیا کو علم ہے کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے حملہ کیا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ میں اتنی ہمت کہاں تھی کہ وہ میاں برادران کے خلاف کوئی عدالتی حکم پاس کرتے ۔یہ ہمت تو ان میں اب بھی نہیں ہے اگر چہ آزاد عدلیہ کے شور و غل میں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت پچھلے پانچ سالوں سے حکمِ امتناعی پر چل رہی ہے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ شہباز شریف کی وزارتِ اعلی والے مقدمے کی شنوائی کر کے کوئی فیصلہ صادر کر سکے۔ ابھی تو کل کی بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف کس طرح میاں براداران نے جھوٹے مقدمے قائم کئے تھے اور ججز کو استعمال کیا تھا۔ ان کی آ ڈیو کیسٹ پکڑیں گئی تھیں تب کہیں جا کر محترمہ بے نظیر بھٹو کو ریلیف ملا تھا وگرنہ میاں برادران نے ان کے خلاف فیصلہ تو حاصل کر لیا گیا تھا اور انھیں سیاست سے فارغ کرنے کے سارے انتظامات بھی مکمل کر لئے تھے۔

یہ ایک ایسی جماعت کے ساتھ روا رکھا جا رہا تھا جو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت ہے اور جس نے پاکستان پر کئی دفعہ حکومت کی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھ اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کیا حیثیت ہے اور وہ کس کھاتے میں ہیں؟(جاری ہے)

تحریر : طارق حسین

Tariq Butt

Tariq Butt