غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یوں

door se mat dikha

door se mat dikha

غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یوں
بو سے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا، کہ یوں

پرسش طرز دلبری کیجیے کیا کہ بن کہے
اس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوں

رات کے وقت مے پیسے، ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یوں

غیر سے رات کیا بنی، یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا اور یہ دیکھنا کہ یوں

بزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خاموش بیٹھیے
اس کی تو خاموشی میں بھی یہی مدعا کہ یوں

میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح
دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں

غالب