قذافی کے بعد لیبیا میں چین کا کردار

libya gadhafi

libya gadhafi

فرانس، امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں کے برعکس جب اس سال کے شروع میں لیبیا میں سویلین آبادی کی حفاظت کے لیے طاقت کے استعمال کا معاملہ زیرِ بحث آیا تو چین نے اقوام متحدہ میں ووٹ دینے سے احتراز کیا۔چین کا یہ رویہ حیران کن نہیں تھا کیوں کہ اس نے روایتی طور پر ان معاملات میں دخل دینے کی مخالفت کی ہے جنہیں وہ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات سمجھتا ہے۔ سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ چین یہ نہیں چاہتا کہ دوسرے ملک اس کے اپنے معاملات میں دخل دیں یہ انسانی حقوق ہوں، یا  تبت یا اقتصادی اصلاحات کے معاملات ہوں اور وہ اسی اصول کا اطلاق بیرونی ملکوں پر کرتا ہے۔ تجزیہ کار کہتیہیں کہ جو چیز تبدیل ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ چین بین الاقوامی امور میں زیادہ جرات مندانہ اقدامات کرنے لگا ہے۔پیٹرپام واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک ریسرچ گروپ اٹلانٹک کونسل کے افریقہ سینٹر کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ جب اقوام متحدہ میں اس سال کے شروع میں ووٹ ڈالے گئے تو چین نے حمایت میں ووٹ نہیں ڈالا لیکن اس نے اس ووٹ کی مخالفت بھی نہیں کی۔ در اصل چین نے لیبیا کی اس صورت حال کے بارے میں  جتنے  لچکدار رویے کا مظاہرہ کیا ہے اس کی توقع ان سے چھ مہینے قبل یا اس سے پہلے نہیں کی جا سکتی تھی۔چین بتدریج لیبیا کی نیشنل ٹرانزیشن کونسل کے ساتھ رابطے کرتا رہا ہے۔ جون میں اس نے یہ اشارہ دیا کہ وہ دونوں فریقوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ وزیرِ خارجہ یانگ جئیچی نیشنل ٹرانزیشن کونسل کے لیڈر محمود جبریل سے ملے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے بیجنگ میں قذافی کے وزیرِ خارجہ کی میزبانی کی۔گذشتہ بدھ کو چین کے وزارتِ خارجہ نے اپنی حمایت کا واضح ترین مظاہرہ کیا جب اس نے ایک بیان جاری کیا کہ چین لیبیا کے عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہے اور اسے امید ہیکہ اقتدار  مستحکم انداز سے منتقل ہو جائے گا۔ایک روز بعد، جمعرات کو فرانس کے صدر نکولیس سارکوزی بیجنگ میں اپنے مختصر قیام کے دوران چین کے صدر ہو جن تا سے ملے۔ جن  کئی اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا ان میں لیبیا  کا موضوع بھی شامل تھا۔چین کی وزارتِ خارجہ نے بھی لیبیا پر زور دیا ہے کہ وہ  وہاں اس کے تیل کے مفادات کی حفاظت کرے۔ چین تیل خرچ کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ گذشتہ سال اس کی تیل کی درآمدات کا تین فیصد حصہ  لیبیا سے آیا تھا۔ پام کہتے ہیں کہ چین کی خارجہ پالیسی میں روز بروز اس کے مفادات کا زیادہ اظہار ہونے لگا ہے صرف  خام مال تک رسائی تک نہیں بلکہ ایسے اداروں کو ٹھیکوں کے معاملے میں بھی جو حکومت کی ملکیت ہیں۔ ہم نے اس لچکدار رویے کا مظاہرہ یقینا لیبیا میں دیکھا ہے لیکن ہم یہی رویہ سوڈان میں بھی دیکھ چکے ہیں جہاں چینی حکومت نے برسوں تک خرطوم میں حکومت کی حمایت کی لیکن جب جنوبی سوڈان کے علیحدگی کا امکان واضح ہو گیا تو چین نے فورا پینترا بدل لیا اور اب اس نے جنوبی سوڈان کی حکومت سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے ہیں۔بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینیئر فیلو جانتھن پولاک کہتے ہیں کہ اس قسم کے طرزِ عمل کی روشنی میں یہ کہنا مشکل ہیکہ چین لیبیا میں قذافی کے مخالفین سے دشمنی مول لے گا۔ چینیوں کی کوشش ہے کہ وہ ایک طرف تو یہ اصرار کرتے رہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خود کو ایسی پوزیشن میں لا رہے ہیں کہ دونوں طرف آ جا سکیں اور جب صورتِ حال واضح ہو جائے تو پھر جو بھی حکومت بر سرِ اقتدار آ جائے اسے تسلیم کر لیں۔سرکاری میڈیا کے مطابق چین لیبیا میں 50 منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن کی کل مالیت 20 ارب ڈالر بنتی ہے۔ ان منصوبوں میں ٹیلی کمیونیکیشنز، ریلوے، تیل ، عمارتوں کی تعمیر اور بنیادی ڈھانچوں کے پراجیکٹس شامل ہیں۔جب لیبیا میں شورش شروع ہوئی تو چین کو 35000 سے زیادہ کارکنوں کو لیبیا سے نکالنا پڑا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جون تک چین کے سرکاری اداروں کو  لیبیا میں خانہ جنگی کی وجہ سے 62 کروڑ 50 لاکھ ڈالر تک کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔چینی عہدے دار پہلے ہی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں ۔ انہیں امید ہے کہ چین کے لیے لیبیا میں کام کرنے کے مواقع باقی رہیں گے ۔ اس ہفتے کے شروع میں چین کی وزارت تجارت کے نائب سربراہ وین ژونگ لینگ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہسب جانتے ہیں کہ لیبیا کے حالات سے وہاں چین کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ چین کو امید ہے کہ وہاں حالات مستحکم ہونے کے بعد لیبیا چینی سرمایہ کاروں کے مفادات اور حقوق کی حفاظت جاری رکھے گا۔لیبیا کی حزبِ اختلاف کے لیڈروں نے کہا ہے کہ وہ تمام قانونی سودوں کے پابند ہوں گے جو قذافی حکومت نے کیے تھے۔ لیکن حزبِ اختلاف کے بعض لوگوں نے اشارہ دیا ہے کہ چونکہ چین اور روس نے باغیوں کی حمایت نہیں کی ہے اس لیے انہیں نقصان ہو سکتا ہے۔ اگلے ہفتے جب نیشنل ٹرانزیشن کونسل  کے ارکان پیرس میں لیبیا کے مستقبل کے بارے میں ایک کانفرنس کے لیے جمع ہوں گے تو جو بہت سے معاملات زیرِ بحث آئیں گے ان میں کنٹریکٹس کا معاملہ بھی ہو گا۔ اس کانفرنس میں چین کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔