قرض دینے اور لینے کے احکام اور ثواب و عذاب

قرض دینے اور لینے کے احکام

take and give

take and give

معتبر روایات میں قرض دینے والوں کیلئے بہت زیادہ ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اور قرض نہ دینے والوں کے لیے شدید عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔

بعض مواقع پر قرض کا دینا واجب اور نہ دینا حرام ہے اور بعض جگہوں پر قرض دینا مستحب اور نہ دینا مکروہ ہے لیکن اسوقت جب قرض کی ضرورت نہ ہو تو قرض کا لینا مکروہ ہے لیکن وقت ضرورت قرض لینے سے اسکی کراہت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

کراہت کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق دراصل ضرورت کے کم اور زیادہ ہونے پر ہے، پس اگر کم ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت زیادہ ہو گی اور اگر ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت کم ہو گی۔

یہاں تک کہ بعض مواقع پر کراہت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور قرض لینا واجب ہو جاتا ہے۔ مثلاً جان اور ناموس کی حفاظت قرض لینے پر موقوف ہو تو قرض لینا واجب ہو جاتا ہے۔

اگر کسی شخص کو معلوم ہے کہ قرض ادا نہ کر سکیگا تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قرض نہ لے مگر یہ کہ وہ ضرورت مند ہو۔

قرض دینے کا ثواب اور نہ دینے کا عذاب

حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔
(ترجمہ)
اگر کوئی شخص کسی مومن کو قرض دے اور اسے استطاعت پیدا ہونے تک کی مہلت دے تو وہ قرض میں دیا ہوا مال اسکے لیے زکوٰة ( زکوٰت) کی مانند ہو گا اور ملائکہ اس مال کے واپس ملنے تک اسکے حق میں دعا اور طلب رحمت کرتے رہینگے۔

اسکے علاوہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ)
اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو قرض دے تو وہ خود اسکے اپنے لیے ہے۔ ہر وہ درہم جو وہ قرض میں دیتا ہے اسکے عوض کوہ احد ( جو مکہ معظمہ کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑ ہے) اور طور سینا کے برابر نیکیاں اسکے اعمال نامہ میں لکھی جائینگی اور قرض کا مطالبہ کرنے میں مقروض سے نرمی کا برتاؤ کرے تو وہ بغیر حساب و عذاب کے ایک لپکتی ہوئی بجلی کی مانند پل صراط پر سے گذر جائیگا اور اگر کسی شخص کے سامنے اسکا مسلمان بھائی اپنی پریشانی اور دکھ درد بیان کرے اور وہ اسے قرض نہ دے تو خداوند عالم بہشت اس پر حرام کر دیگا اس روز جبکہ نیک لوگوں کو انکی جزا دی جائیگی۔

لازمی طور پر قرض کی ادائیگی کا ارادہ رکھنا چاہیے۔
وہ مقروض جو قرض لوٹانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسکے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی صاحب استطاعت ہو گا سب سے پہلے قرض ادا کریگا اور قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام نہیں لیگا بلکہ قرض لیتے وقت بھی یہی نیت ہونی چاہیے اگر قرض لیتے وقت اسکی نیت ادا نہ کرنے کی ہو تو اس مال میں تصرف حرام ہے۔

اسکے علاوہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ )
مجبور و مقروض کو مہلت دینا چاہیے۔
اور ایسی صورت میں جبکہ مقروض گھر کی غیر ضروری اشیاء کو بیچ کر بھی آسانی سے اپنا قرض ادا نہ کر سکے تو قرض خواہ پر واجب ہے کہ وہ مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کیونکہ مقروض کو مشکلات سے دوچار کرنا حرام ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(ترجمہ )
اگر کوئی تنگدست ( تمہارا قرض دار) ہو تو اسے خوشحالی تک کی مہلت دو اور اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں یہ زیادہ بہتر ہے کہ ( جو قرض اس نے لیا ہے) بخش دو۔

کیونکہ اگر تم اپنا قرض واپس لے لو تو دوسری چیزوں کیطرح وہ بھی وقت آنے پر ختم ہو جائیگا لیکن اگر بخش دو تو یہ ایسا صدقہ ہے جو خدا کے نزدیک امانت ہے اور اس سے ہمیشہ فائدہ ملتا رہیگا۔

اس آیت سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک یہ ہے ایسے مقروض کو جو قرض دینے سے عاجز ہو مہلت دینا واجب ہے اور دوسرے یہ کہ قرض خواہ کا قرض کو بخش دینا زیادہ بہتر ہے اور بہت سی روایات میں ان دونوں باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ )
تمہارے مقروض کے لیے جائز نہیں کہ وہ قدرت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لے اور اسی طرح تمہارے لیے بھی جائز نہیں کہ تم اسے تنگدستی کی حالت میں مجبور کرو جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ قرض دینے سے معذور ہے۔

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں تنگ کرنے سے پرہیز کرو جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ قرض نہیں دے سکتا۔

اس لیے کہ ہمارے جد حضرت رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کا کسی مسلمان کو تنگ کرنا جائز نہیں اور اگر کوئی قرض خواہ مقروض کو مہلت دے تو اللہ تعالیٰ اسے اس روز اپنے سایہ میں پناہ دیگا کہ جب خدا کے سائے کے سوا دوسرا سایہ نہ ہو گا۔

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔
(ترجمہ)
اگر کوئی چاہتا ہو کہ اسے اس روز عرش الہٰی کے سائے میں پناہ دی جائے جب خدا کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا تو اسے چاہیے کہ تنگدست مقروض کو مہلت دے اور اس سے قرض کا مطالبہ نہ کرے یا اسے قرض بخش دے۔

ہر روز کی مہلت کیلئے صدقے کا ثواب
ایک روز نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمدو ثناء اور انبیاء علیہم السلام پر درود بھیجنے کیبعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو موجود ہیں انکے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو موجود نہیں ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ

(ترجمہ)
اگر کوئی شخص اپنے پریشان حال مقروض کو مہلت دے تو جب تک اسکا مال واپس نہ مل جائے اس کے نامہ اعمال میں صدقہ دینے کے برابر ثواب (لکھنے) کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے۔

time

time

یعنی ہر وہ دن جس میں اس نے مہلت دی بالکل اسی طرح ہے کہ اس نے ہر روز وہ مال راہ خدا میں خرچ کیا ہو اس سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ضمناً یہ بات جاننا چاہیے کہ خمس و زکوٰة ( زکوٰت) کا ادا نہ کرنا یا انکی ادائیگی میں غفلت برتنا بھی حقوق کے ادا نہ کرنے میں شمار ہوتا ہے کیونکہ زکوٰة ( زکوٰت) کا ادا نہ کرنا بھی گناہ کبیرہ میں سے ہے جس کے لیے نص خاص ہے اس لیے اسکا علیحدہ سے ذکر کیا جائیگا۔

(جاری ہے……………..)

تحریر: علامہ محمد ادریس