مارشل لا پلس؟ تو پھر بس

pakistan army

pakistan army

سابق صدر جنرل (ر) پرویزمشرف نے ایک ٹی وی چینل پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوج بھیجی جائے۔کراچی میں مختلف مکاتب فکر کے جید علمائے کرام اور دینی جماعتوں کے رہنماں نے مطالبہ کیا کہ فوج حالات کنٹرول کرے۔گزشتہ روز کورکمانڈرز کی میٹنگ میں کراچی کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان میں 1965 کے شہدا کی یاد میں ہر سال تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ مگر اس مرتبہ اگست کے مہینے میں بھی 1965 اور 1971 کے شہدا کی یاد میں ایک تقریب منعقد کی گئی۔ یہ دونوں جنگیں بھارت کے ساتھ ہوئی تھیں۔ ان جنگوں کے شہدا کی یاد یں تو ہر دم تازہ رہتی ہیں اور انہیں رکھنا چاہیے لیکن عین اس وقت جبکہ پاک بھارت جامع مذاکرات کا عمل پھر سے شروع ہونے جا رہا ہے جنگوں کی یادیں تازہ کرنا قابل غور ہے۔ گزشتہ روز طاقت کے سرچشمے سے جب وہی دو پرانے نعرے بلند ہوئے جو یحیی خان کے دور میں لگائے گئے تھے اور ان نعروں کے ذریعے یحیی خان کے حکمران ٹولے کو بھڑکا کر مشرقی پاکستان پر چڑھائی کے لئے آمادہ کیا گیا تھا وہ نعرے پھر زور پکڑنے لگے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں عوام کی نمائندگی کرنے والی کسی قابل ذکر سیاسی جماعت نے ان نعروں کی پذیرائی نہیں کی۔ قومی لیڈروں میں ایک نوازشریف کے بارے میں یہ تصور تھا کہ وہ برصغیر میں نفرت کشیدگی اور حالت جنگ کی صورتحال برقرار رکھنے کے حامی ہیں۔ لیکن گزشتہ روز انہوں نے بھی ایک تاریخی تقریر میں یہ تاثر دور کر دیا۔ جس پر انہیں بری طرح سے ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ نوازشریف نے 1997 کا الیکشن بھارت کے ساتھ دوستی کے نعرے پر دوتہائی اکثریت سے جیتا تھا۔پاکستان کی دیگر نمائندہ سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی۔ایم کیو ایم۔ اے این پی۔ جے یو آئی اور چودھری شجاعت حسین کے بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ (ق) بھی برصغیر میں امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے کی خواہش مند ہیں۔ 1965 کی جنگ میں پاک فوج کو پورے ملک کی سیاسی جماعتوں اور عوام کی بھرپور اور پرجوش حمایت حاصل تھی۔ اسی وجہ سے ہمارے افسر اور جوان پاکستان کا بہادری اور جوانمردی سے دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ 1971 کی جنگ میں مغربی پاکستان کے عوام اس جوش و خروش کے ساتھ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کے حامی نہیں تھے۔ ایئرمارشل اصغر خان اے این پی اور دوسرے کئی لیڈروں نے برملا اس کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ معدودے چند لوگ جو مشرقی پاکستان پر زبردستی اپنے تصورات مسلط کرنا چاہتے تھے انہوں نے ضرور نہتے عوام پر فوج کشی کی حمایت کی تھی۔ مگر اس کے نتیجے میں جو المیہ رونما ہوا اور پاک فوج کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اس بار پھر سے انہی نعروں کا احیااندیشے پیدا کر رہا ہے۔ کراچی کے حالات یقینا انتہائی تشویشناک ہو چکے ہیں۔ شہدا کی یاد میں منعقدہ تقریب کے موقع پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کو اشتعال دلانے کی جو کوشش کی گئی ظاہر ہے وہ کچھ عناصر کی خواہشات کے مطابق تھی۔حامد میر نے لکھا ہے ایک صحافی نے ان (جنرل کیانی) سے کہا کہ کراچی جل رہا ہے۔ قوم آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ جنرل کیانی نے جواب میں کہا کہ آئین کے مطابق فوج حکومت کے ماتحت ہے۔ حکومت جو کہے گی ہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک اور صحافی نے کہا کراچی کے حالات فوری اقدامات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ جنرل کیانی نے اپنے قریب کھڑے چیئرمین سینٹ فاروق نائیک وزیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ اور وزیرداخلہ رحمن ملک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فوری اقدامات کا فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ ایک صحافی نے فاروق نائیک کا کندھا پکڑ کر کہا کہ حکومت سے تو ہمیں خیر کی توقع نہیں۔ صحافیوں کے ایک مخصوص گروپ نے اسی طرح کا طرزعمل 1977 میں بھی اختیار کیا تھا۔ بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی نے تو اپنے نشریاتی ادارے کو پی این اے کا پراپیگنڈہ سیل بنا دیا تھا۔ وہ صرف یہی خبر نہیں دیتے تھے کہ پی این اے نے مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ یہ بھی بتاتے تھے کہ کس بڑے شہر میں احتجاجی جلوس کتنے بجے شروع ہو گا؟ ایسے صحافیوں کے پردے میں کون بول رہا ہوتا ہے؟ اب یہ جاننے کے لئے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ گزشتہ روز جنرل ضیا سے جنرل مشرف تک دونوں فوجی آمروں کو بھگتانے والے سینئر بیورو کریٹ سید انور محمود نے ایک انتباہی مضمون میں 4جولائی کی رات کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے اپنے بیان کے مطابق حفیظ پیرزادہ سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلد کوئی فیصلہ کریں۔ ورنہ دیر ہو جائے گی۔ ان کے مضمون کا عنوان تھا کل شاید دیر ہو جائے۔ بظاہر 4 جولائی 1977 والے حالات نظر نہیں آتے۔ جنرل کیانی کے زیرقیادت فوج جمہوریت کی مکمل حمایت کر رہی ہے۔ گزشتہ چار پانچ روز کے دوران ان کی طرف سے آنے والے بیانات بالکل واضح ہیں اور انہوں نے کراچی کے حالات کی وجہ سے فوج کے کسی براہ راست اقدام کی خبروں کی تردید کی ہے اور صاف کہا ہے کہ فوج آئین کے مطابق اقدام کرے گی۔ اس کے باوجود انور محمود جیسے سینئر بیورو کریٹ کا انتباہ بلاوجہ نہیں ہو سکتا۔ اگر اس انتباہ کی روشنی میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو سوچنا پڑتا ہے کہ اگر فوج نے 4جولائی 1977 جیسا قدم اٹھایا تو اس کی کیا صورت ہو گی؟ اس مرتبہ فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کی کسی بھی کوشش کو عوام کی کوئی بھی نمائندہ جماعت قبول کرنے پر تیار نہیں۔ حتی کہ فوج کی روایتی حلیف جماعت اسلامی بھی اس کی مخالفت کر چکی ہے۔ دہشت گرد پہلے ہی فوج سے برسرپیکار ہیں اور ان کے بعض گروہوں کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ امریکہ بار بار جمہوری حکومت کی حمایت کر کے  اس کے خلاف عوامی جذبات بھڑکا رہا ہے تاکہ منتخب حکومت کی عدم مقبولیت سے فوج کو اقتدار پر قبضے کی ترغیب مل سکے۔ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات اس کے خلاف بھڑکے ہوئے ہیں اور فوج اس خوش فہمی میں مبتلا ہو سکتی ہے کہ حکومت کو ہٹانے کے اقدام پر عوام اس کا پرجوش استقبال کریں گے۔ لیکن جیسے ہی فوج نے خدانخواستہ ایسا قدم اٹھایا اگلے ہی روز یہی امریکہ اور اس کے حواریوں کا میڈیا فوج کے خلاف زبردست پراپیگنڈہ مہم شروع کر دے گا اور نمائندہ سیاسی جماعتیں جو کہ پہلے ہی غیر جمہوری اقدام کے خلاف ہیں حوصلہ پا کر متحرک ہو جائیں گی اور فوج کے لئے حالات پر قابو پانا دشوار ہو جائے گا۔ عدالت عظمی جہاں سے فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے ساتھ قانونی جواز مل جاتا تھا اس بار نہیں مل سکے گا۔ ماضی میں ہر فوجی حکومت کو قدم جمانے کے لئے دو سہارے دستیاب ہوتے تھے۔ ایک امریکہ اور اس کے حامیوں کی سرپرستی اور دوسرے سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے آئین توڑنے کے اقدام کو عدالتی تحفظ۔ اس بار یہ دونوں دستیاب نہیں ہوں گے۔ بظاہر یہی لگتا ہے۔ بفرض محال ہمیں مغالطے میں رکھا جا رہا ہے اور یہ دونوں سہارے حسب روایت حاصل بھی ہو جائیں تو بھی موجودہ حالات میں فوج کے لئے عوامی حمایت کے بغیر حالات پر قابو پانا مشکل ہو گا اور بھارت کے ساتھ کشیدگی اور دشمنی کی پالیسی کے جواب میں اس کی طرف سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔اپنے ہی عوام سے برسرپیکار فوج کی مشکلات سے بھارت کیوں فائدہ نہیں اٹھائے گا؟ اور ہمارے چند ریٹائرڈ جرنیل افغانستان پر بالادستی قائم کرنے کے جو خواب دیکھ رہے ہیں وہ تو کیا پورے ہوں گے؟ پاکستان پر اقتدار قائم رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس بار صرف مارشل لا سے کام نہیں چلے گا۔ بقول ایک ممتاز قانون دان مارشل لا پلس کی ضرورت پڑے گی اور مارشل لا پلس؟ تو پھر بس۔