مانا وادئی عشق میں پائوں اندھا رکھنا پڑتا ہے

blind feet

blind feet

مانا وادئی عشق میں پائوں اندھا رکھنا پڑتا ہے
لیکن گھر کو جانے والا رستہ رکھنا پڑتا ہے

تنہائی وہ زہر بجھی تلوار ہے جس کی دہشت سے
بعض اوقات تو دشمن کو بھی زندہ رکھنا پڑتا ہے

جبر کی جتنی اونچی چاہو تم دیوار اٹھا لینا
لیکن اس دیوار میں اک دروازہ رکھنا پڑتا ہے

ہجر کا دریا آن پڑا ہے بیچ تو کوئی بات نہیں
عشق میں ساتھی تھوڑا سا تو حوصلہ رکھنا پڑتا ہے

بے خبری کی شامیں ہوں تو پھر انجان مسافر کو
صحرا میں بھی سمتوں کا اندازہ رکھنا پڑتا ہے

نوشی گیلانی