مثبت تبدیلی کیا اور کیسے؟

Pakistan Elections

Pakistan Elections

یہ نہایت ہی خوش کن بات ہے کہ ہمارے ہاں یہ بحث تو چل پڑی کہ یہاں پر مثبت تبدیلی صرف ووٹ کے مرہون منت رہے گی یا اس کے لیے کوئی اور بہتر طریقہ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ قبل اس کے کہ تبدیلی کے امکانات پر غور کیا جائے یہ دیکھ لینا ضروری ہو گا کہ آخر یہ تبدیلی ہے کیا جس کا ہم عرصہ دراز سے انتظار کر رہے ہیں مگر وہ مسلسل ہم سے بھاگی ہی جا رہی ہے۔

سامنے تو غربت، مہنگائی، بجلی، گیس، پانی، دہشت گردی ، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے عذاب ہی ہیں جن کو ہم بدلنا چاہتے ہیںمگر اصل تبدیلی تو ہماری جڑوں میں بیٹھی ہوئی ان موذی امراض کے علاج کا نام ہے جن کے بدن سے ظاہر کی یہ ساری آفات ، مصائب اور آلام جنم لے رہے ہیں۔

تیز رفتار اور بے لگام بڑھتی ہوئی آبادی ، جاگیرداری نظام، بنیادی تعلیمی ڈھانچے کی زبوں حالی ، مذہب کا بے جا استعمال ، ہماگیر کرپشن اور لا قانونیت ہی اصل جان لیوا بیماریاں ہیںاور باقی سب انہی کے شاخسانے ہیں۔ ان بنیادی امراض کی موجودگی میں ان ہی سے پیدا ہونے والے بھیانک اثرات کا علاج ممکن ہی نہیں اور ان سے نجات کے لیے خود ان کے اسباب کا ادراک بھی لازمی ہے۔

پاکستان کے بنیادی مسائل کسی اتفاق یا محض غفلت و لاپرواہی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس سیاسی نظام کے پیدا کردہ ہیں جو آزادی کے وقت سے ہم پر مسلط چلا آرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے برطانوی سامراج کی 150سالہ غلامی سے اپنی آزادی بزور بازو یعنی کسی عسکری جدوجہد سے حاصل نہیں کی تھی بلکہ یہ سامراج اور دیسی قوتوں کے درمیان افہام و تفہیم کے سیاسی عمل کا نتیجہ تھی۔ لہذا ہماری آزادی نے مستقبل میں جو رنگ لانا تھا اس سے متعلق ہماری اپنی قومی امنگوں کے ساتھ ساتھ خود سامراج کے ذہن میں اپنے عالمی مقاصد کا نہایت اہم خاکہ بھی پوشیدہ تھا۔

آزادی سے دو ہی سال قبل دوسری عالمگیر جنگ کے خاتمے پر امریکہ اور سابق سوویت یونین دو سپر طاقتیں بن کر ایک دوسرے کے خلاف محاز آرہ ہوئیں اور باقی ساری دنیا انہی کے حلقہ ہائے اثر میں منقسم ہو گئی تھی۔ روس اور چین کے پڑوس میں واقع ہونے اور برصغیر کا بھی حصہ ہونے کی وجہ سے عالمی طاقتوں کے لیے پاکستان کا جغرافیہ خصوصی اہمیت کا حامل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے سامراجی منصوبہ کے مطابق آزادی کے بعد پاکستان کو محض اینگلو امیریکن بلاک کے سیاسی ،اقتصادی اور عسکری مفادات کا اڈا بننا تھا۔یقینا یہ مخفی پروگرام بابائے قوم کے ذہن میں موجود تصور آزادی سے قطعی مختلف تھا جس کے مطابق یہاں ایک قوم کی تشکیل اور تعمیر ہونی تھی مگر یہ خواب ان کی وفات کے ساتھ ہی دفن ہو گیا تھا۔ اس کے بعد آج تک یہاں پر صرف سپر طاقت ہی کا ایجنڈا نافذ ہے۔

Indian Army

Indian Army

ان مقاصد کے لیے بنیادیں آزادی سے قبل ہی ڈال دی گئیں تھیں۔ کشمیر کا مسئلہ پیدا کر کے انڈیا پاکستان کو ایک دوسرے کا دائمی دشمن بنا دیا گیا اور پارلیمانی نظام حکومت کے نام سے اقتدار اپنے پرانے وفادار طبقے کے حوالے کیا گیا۔ ملکی اقتدار اعلیٰ کی چابیاں واشنگٹن میں رہیں اور آج تک ہماری حکومتوں کا بنانا اور اتارنا کلیتاً امریکہ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کا سیاسی و اقتصادی نظام اور مشرقی اور مغربی محازوں پر ہماری جنگیں اور قربانیاں غرضیکہ ساری اندرونی اور بیرونی کشمکش اسی کھیل کا حصہ رہی ہے جس میں ملکی اور قومی مقاصد کو انگلی رکھنے کی جگہ تک نہیں مل سکی۔ یقینا اس ساری صورت حال کے ہم خود بھی ذمہ دار ہیں ورنہ امریکن سپر طاقت کے تابع سارے چھوٹے ملک تباہ ہی نہیں ہو جاتے۔

اپنے برادر ملک ترکی کے مثال سامنے ہے جو شروع ہی سے نیٹو کا اہم رکن چلا آرہا ہے اور امریکن پالیسیوں سے منسلک ہے مگر وہاں ایک باوقار ، مہذب اور قابلِ احترام قوم بھی ترقی کی نت نئی منزلیں تہہ کر رہی ہے جب کے ہماری قیادت نے غیر ملکی مفادات کو مکمل بلینک چیک دیا اور اس کے عوض اس ملک کے عوام کو اپنے صرف لاکھوں پر مشتمل طبقے کا غلام بنا دیا۔ اس طرح پاکستان شروع ہی سے اندرونی اور بیرونی دوہرے شکنجے میں پھسا ہوا ہے جو شاید ساری دنیا میں جدید طرز غلامی ((New colonialismکی بد ترین مثال ہے اور جس کی وجہ سے پورا ملک غربت ، جہالت اور غیر انسانی سطح پر زندہ رہنے پر مجبور ہے۔

ہماری تاریخ میں اکا دکا بہتر نام بھی موجو د ہیں جو ملک کے لیے نرم گوشہ بھی رکھتے تھے مگر ان سے بھی کچھ بن نا پایااور اگر انہوں نے کچھ کیا بھی تو آنے والوں نے اس پر مٹی ڈال دی۔ ملکی تاریخ کے اس نظام کو جمہوریت کہیں یا امریت مگر یہ اپنی حقیقت میں طے شدہ سکرپٹ پر پتلی ناچ اور لوٹ مار کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ 65سال گزر گئے مگر قومی پودا لگنے ہی نہیں دیا گیا۔ اب یہ قوم نہیں بلکہ بے خبر، منتشر اور ستم زدہ لوگوں کا جم غفیر ہے جسے اس وقت بھی ذلت و رسوائی اور ٹوٹ پھوٹ کی کسی بد ترین قربان گاہ کی طرف ہانکا جا رہا ہے۔ حیف ہے ہم پر کہ قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند ۔ گزشتہ پانچ سالوں میں رائج الوقت نظام قطعی بے نقاب ہو چکا ہے مگر مقتدر اور موثر طبقہ اسی نظام کو نسلوں تک قائم رکھنے کی قسم کھائے بیٹھا ہے کیونکہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اب تو مل کے کھانے کی ریت چل پڑی ہے اس لیے یہ پہلے سے زیادہ متحد اور مضبوط بھی ہیں۔

آج کی دنیا اور زمانہ تاریخ کے خونیں انقلابوں کی جگہ اور وقت بھی نہیں ہے ، عوام معذور اور مجبور ہیںاور طاقتور اداروں کا بھی مذاق بنایا جا رہا ہے۔ اس لیے اس نظام سے چھٹکارہ بھی ابھی مشکل ہے مگر ان سے قومی سطح کی توقعات رکھنا بھی ایسے ہی ہے کہ : میر کیا سادہ ہیں کہ بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دعا مانگتے ہیں “ڈاکٹر طاہر القادری کے تبدیلی کے حوالے سے کیے گئے مطالبات وقت کا اہم ترین تقاضہ ہیں۔ غیر معمولی حالات اور قومی ابتلا کا سامنا خصوصی اقدامات ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ جب ملک اور قوم خو د داؤ پر ہے تو پھر آئینی موشگافیاں ، طاقتور اداروں سے الرجی اور انتخابی دنگل کی تیاریاں افسوسناک اور مایوس کن ہیں۔

ملک کو تو اس وقت ماہرین پر مشتمل ایسے غیر سیاسی قومی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو متفقہ ہونے کی بنیاد پر اختلافی سیاست اور رکاوٹوں سے آزاد اور مکمل بااختیار ہو کر ڈوبتی ہوئی قومی کشتی کو سہارا اور مستقبل میں دیانتدار حکومت کی راہ بھی ہموار کر سکے۔ ایسا صرف اور صرف فوج ، عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کے تعاون سے وجود میں آنے والی عبوری حکومت ہی کر سکتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ آج ملک بچانے کے لیے عبوری حکومت کے قیام میں آئین کیسے سدراہ ہے۔ کیا 2007سے 2013تک کے سارے سیاہ کارنامے آئین کی روح کے مطابق تھے۔ پہلے تو قومی کرپشن اور قانون میں مصلحت کے لیے NROجاری ہواپھر اس میں ملوث اور شامل شخصیات ملک کی اقتدار اعلیٰ پر فائز ہو گئیں۔ انہی کے گزشتہ پانچ سالہ دور میں ملک تباہ بھی ہو گیامگر انہیں پرواہ تک نہیں۔

صاف نظر آتا ہے کہ یہ ان کا اپنا ذہن اور زور نہیں بلکہ کسی اور کا فیضان نظر ہے۔ اسی مجبوری کی وجہ سے قادری صاحب کے مطالبات کے لیے فضا ساز گار نہیں مگر ان کی کاوشیں رائیگاں بھی نہیں گئیں۔ انہوں نے اس ملک کی بنیادی ضرورت یعنی یہاں پر ایک دیانتدار حکومت کے قیام کے تصور کو دلوں سے نکال کر قومی ایشو بنا دیا ہے جو بذات خود ہی مخلوق کے لیے سہارے اور سکون کا باعث ہے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کا تہذہبی پہلو اور نمونہ اس کی سیاست سے کم اہم نہیں ہے۔

یہ گرما گرم سیاسی احتجاج تھا جس میں ہر عمر ،جنس ، تعلیم ، تجربہ اور طبقیء کے لوگ شامل تھے۔ لاکھوں پر مشتمل مخلوق کی ریہرسل بھی ناممکن تھی مگر کہیں بھی کوئی لچی لفنگی یا معیار سے گری ہوئی حرکت دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔ اجتماع کے شرکاء کو اپنے چہروں کی متانت ،خوشگواریت ، لباس ، آواز، نقل و حرکت اور باہمی خلوص و تعاون کے طور طریقوں نے خوبصورتی اور شائستگی کا نمونہ بنا دیا تھا۔کیا یہ کمال نہیں ہے کہ ساری

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

قوم تہذیب اور اخلاق میں انہیں اپنائے گی اور دنیا نے بھی دیکھا کہ موقع ملے تو پاکستان بھی منظم ، پرامن اور مہذب بن سکتا ہے۔ قادری صاحب خود سیاست میں ہوں یا باہر ، کینیڈا میں رہیں یا پاکستان میں مگر وہ اسی سرزمین کے مایہ ناز سپوت ہیں۔

تحریر : محمد عارف عباسی ،سابق ممبر پبلک سروس کمیشن، آزاد کشمیر
E-mail:arif_abbasi68@yahoo.com
فون نمبر0306-4126857