مجرم کون (تحریر ۔سمن شاہ)

Saman Shah (Paris France)

Saman Shah (Paris France)

پاکستان تحریکِ انصاف فرانس کی جان توڑ کوششوں کے نتیجے میں بلاآخر چئیرمین عمران صاحب نے پیرس آنے کی حامی کیا بھر لی پورے شہر میں عجب ہلچل پھیل گئی۔ لو جی! تیاریاں عروج پر تھیں۔ کم وقت مقابلہ سخت تھا۔

کچھ کارکن واقعی محنت سے انتظامات کرنے میں مصروف تھے لیکن کچھ کارکن کام تو برائے نام کر رہے تھے لیکن ڈھنڈورا خوب پیٹ رہے تھے۔

اب ہم کیا کہیں۔۔۔ کوئی محبت کر رہا تھا۔۔۔ کوئی محبت دکھا رہا تھا۔۔۔ پر محبت تو محبت ہے۔۔۔ یو ں نہ سہی تو یوں سہی

اللہ اللہ کر کہ وہ مبارک دن بھی آن پہنچا جس دن چندے آفتاب چندے ماہتاب کی سواری آنی تھی۔ ہزاروں لوگوں کی طرح ہمیں بھی ان کی دید کی بے قراری نے پریشان کر رکھا تھا۔ سو وقت سے بہت پہلے ہم ہال جا پہنچے ہال کے باہر تمام پارٹی کارکن اپنی اپنی جیبوں میں ٹکٹیں لیے یوں پھر رہے تھے جیسے ٹکٹ نہ ہوں ریوڑیاں ہوں یہ ہم نے اس لیے کہا کہ ٹکٹ کو ٹکٹ سمجھ کر بیچا جائے تو حساب کتاب میں آسانی ہوتی ہے اور ریوڑیوں کا حساب ذرا مشکل ہوتا ہے۔ ویسے یہ میرا ذاتی خیال ہے اور قاری کا میرے خیال سے متفق ہونا ہرگز ضروری نہیں۔

دل کی دھڑکنیں سنبھالتے جب ہم ھال کے اندر پہنچے تو ہمارے محترم قائد کے استقبال کی تیاریاں زوروں پر تھیں ھال کی سجاوٹ قابلِ دید تھی لوگوں کی چہل پہل نے ماحول میں میلے کا سماں پیدا کیا ہوا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ممبران گلے میں لال اور سبز رنگ کے دوپٹے لیے ہوش سے بیگانے کسی سے سلام نہ دعا نہ ویلکم اپنے حال میں مست یہاں سے وہاں بھاگتے پھر رہے تھے ۔ہماری ہی طرح اور بھی دوست اس بے وقت اور بے وجہہ کی بے رخی کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے۔

خیر آجکل موسم بھی اتنی جلدی نہیں بدلتے جتنی جلدی انسانوں کے رویے بدلتے ہیںاور اس پر موسم بھی حیران دکھتے ہیں۔

وقت کی گھڑیاں اس پل جیسے تھم سی گئیں جب چئیر مین عمران خان کے آنے کی منادی کی گئی ھال زور دار نعروں سے گونج اٹھا۔
عمران خان اک فوجِ بدتمیزی کے گھیرے میں اسٹیج پر پہنچے اور انکے فورا بعد جاوید ہاشمی صاحب کو بھی اسی جوش وخروش سے اسٹیج تک لایا گیا۔

اب ایک اور منظر آنکھوں کو حیران کر گیا اسٹیج پر عجیب افراتفری پھیل گئی میری کرسی تیری کرسی دھکم پیل زور آزمائی عمران خان یہ انمول نظارے دیکھ کر پریشان تھے یہ انکے چہرے سے صاف دکھائی دے رہا تھا یقینا سوچ رہے ہونگے کہ اسٹیج کی کرسیوں کے لیے ان کا یہ حال ہے اگر ان کو سچ مچ والی کرسی مل گئی تو یہ کیا حشر کریں گے اسی ھنگامہ آرائی کے دوران عمران خان کی مداح کچھ خواتین ممبران کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا جو ہمین بے حد ناگوار گزرا چونکہ وہ بھی کرسی کے خریداروں میں شامل تھیں تو انکو برابر کا حق ملنا چاہیے تھا۔

مگر اس مردوں کی دنیا میں وہی ہوا جو صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ ان خواتین کو کونے لگا دیا گیا۔ ان خواتین کی آنکھوں میں ان کے ساتھ ہونے والی اس بے انصافی کا گلہ صاف نظر آ رہا تھا۔ اور مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ تحریک انصاف کے ان چیلوں سے پوچھ رہی ہوں!
ارے او بے مروت
ارے او بے وفا
بتا دے کیا یہی ہے وفاؤں کا صلہ

لیکن کوئی کچھ بھی کہے ہمیں یہ بے انصافی بالکل اچھی نہیں لگی اگر ان کو عزت دی جاتی تو انہیں عزت یوں لڑ لڑ کر اور چھین چھین کر تو نہ مانگنی پڑتی آگے چلتے ہیں۔ اسٹیج پر لوگوں کا ہجوم ہر کوئی اپنی جگہہ پتھر مجال ہے کوئی ادھر سے اُ دھر ہو جائے اور ہو بھی کیوں۔
پیسے دیے ہوئے تھے کوئی مزاق تو نہیں تھا نا۔۔۔

ہمیں یاد آ رہا ہے کچھ روز پہلے ایک ٹی وی چینل پر عمران خان کا ایک بیان آ رہا تھا کہ ان کی قیمت کوئی نہیں لگا سکتا۔ میں ان کے اس بیان پر صدقے واری ہو گئی تھی اور دل سے دعا نکلی تھی کہ خدا کرئے آپ سدا بے مول رہیں لیکن صد افسوس بات تو چئیرٹی ڈنر ود عمران خان کی تھی۔

لیکن قیمت بہرحال لگی کہ جو جتنا زیادہ پیسے دے گا اسے عمران خان کی قربت زیادہ نصیب ہو گی عمران خان ایک عوامی لیڈر ہیں لیکن ہماری بد نصیبی کہ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بھی لوگوں کو حسب توفیق قیمت ادا کرنا پڑی اور ہم کیا کہیں ہم سے ہمارے قائد کے ساتھ بس ایک تصویر کے عوض ایک ہزار یورو مانگے گئے انصاف کی یہ کون سی شکل ہے تحریک انصاف فرانس کے نام نہاد جیالے کچھ ہم کو بھی سمجھا دیں تو ہماری مشکل آسان ہو پھر پارٹی ممبران کی تقاریر کا نا قابل برداشت مر حلہ شروع ہوا۔ وہی گھسے پٹے جملے وہی بے عمل کی بیکار باتیں اب ان شعلہ بیاں مقررین کو کیسے سمجھائیں کہ تقریروں سے اگر ملک کی تقدیر بدل سکتی تو ہم آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے ملک نے تو کیا ترقی کرنی ہے البتہ ہمارے کان ان بے اثر الفاظ کی نحوست سے بیمار ہونے لگے ہیں۔

خدا خدا کر کہ یہ اذیت ناک گھڑیاں بیتیں اور معروف لیڈر جناب جاوید ہاشمی مائیک پر تشریف لائے دھیمے دھیمے لہجے میں کچھ جانے پہچانے الفاظ سماعتوں کو چھوتے رہے مگر سچی بات تو یہ ہے ہمیں ان کی باتیں کچھ خاص سمجھ نہیں آئیں پھر بھی یقین ہے انہوں نے کچھ اچھا ہی کہا ہوگا جاوید ہاشمی کی تقریر کے دوران ہم اپنے ہر دلعزیز قائد کو سلام کرنے پہنچے اور جو بات ہمارے دل میں تھی ہم نے چپکے سے جو کہی تو ان کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکان پھیل گئی مگر اس سے پہلے کہ وہ ہمیں اس دلکش سرگوشی کا جواب دیتے۔

سماعتوں کو چیرنے والی آواز نے ان کو دعوت کلام دی عمران خان کو عجلت میں جاتے دیکھ کر شدید حیرت ہوئی شائد ہمارے قائد عمران خان یہ بات بھول گئے ہیں کہ خواتین سے بات کرنے کے کچھ آداب ہوا کرتے ہیں اب اگر یہ ان کی بھول تھی تو ہم انہیں صدق دل سے معاف کرتے ہیں اور اگر یہ ان کی عادت ہے تو ہم ان سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنی عادت ضرور بدل لیں میرا دعوی ہے وہ پہلے سے بہت زیادہ خوبصورت ہو جائیں گے۔

انکے مائیک پر آ تے ہی حاظرین محفل نے ان کا والہانہ استقبال کیا عمران تیرے جانثار بے شمار بے شمار کے فلک شگاف نعروں سے ھال کے در و دیوار لرز اٹھے یہ اور بات ہے کہ انتظامیہ سے نا خوش کسی کونے میں کچھ لوگ یہ آواز بھی لگا رہے تھے عمران تیرے جانثار سب بیکار سب بیکار ۔۔۔ سراپا منتظر ۔۔۔ سراپا شوق ۔۔۔ تمام مہمانان گرامی ان کہ سننے کو بے تاب۔

مگر عمران خان نے حسب معمول جب وہی باتیں دہرانی شروع کیں جنہیں سن سن کر ہم نے زبانی یاد کر لیا ہے۔

تو ماحول میں بے چینی ہونی شروع ہو گئی۔ ملک ریاض کے قصے۔ مٹی ڈالیں اس کلموہے پر۔ مشرف کے فسانے ۔ اب ہوئے پرانے ۔

ان باسی باتوں میں اب کیا رکھا ہے ۔۔۔ کاش کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

بیتابی حد سے بڑھی تو اک منچلے نے اٹھ کر سوال کرنے کی کوشش کی خان صاحب نے اسے بیٹھے کا اشارہ کرتے ہوئے تسلی دی کہ بعد میں سوال و جواب ہونگے انکی تقریر کے دوران اسٹیج پر تشریف فرما حضرات کا شور شرابہ خان صاحب کو بہت ناگوار گزرا جس پر انہوں نے ایک دو بار ٹوکا بھی مگر ہم پاکستانی ہیں۔ ہمیں اخلاقیات سے بھلا کیا لینا دینا اور یوں بھی ہمیں اس سے بھی کیا غرض تھی کہ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ ہمیں تو بس کچھ تصاویر کچھ خبریں چاہیں تھیں باقی باتوں کا کیا وہ ٹی وی پر بھی سنی جا سکتی ہیں۔ دورانِ گفتگو ہمارے موسیقی کے شوقین ممبر بے ہنگم طریقے سے میوزک بجانے کی کوشش میں تقریر کا سارا مزہ کرکرا کرتے رہے جسکا احساس عمران خان بخوبی کر رہے تھے۔ اور بھلا کوئی اس معصوم ممبر سے پوچھے۔ اسٹیج پر طرح طرح کی بولیوں کہیں چوں چوں کہیں میں میں کا سرگم بج رہا تھا ھال میں بے چین کبوتروں کی طرح غر غر کی آ وازیں آ رہی تھیں۔ اب اس جنگل سی حسیں فضا میں مزید موسیقی کی کیا ضرورت تھی۔

ھال میں کھانے کی سروس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

اب یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں نا کہ جب کھانا سرو ہونے لگے تو ہم ادب و آداب رسم و روایات تہذیب و تمدن سب کچھ بلائے طاق رکھ کر کھانے میں یوں مشغول ہو جاتے ہیں جیسے کبھی کھانا کھایا نہ ہو۔

عمران خان کے چہرے پر وہ سارا ماجرا نقش تھا جو ان کی توقعات کے بالکل بر عکس پیش آیا اور ان کا ضبط آخری حدوں کو چھوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس پرانتظامیہ کی حماقتیں یہ تھکی تھکی نگاہیں یہ اڑی اڑی سی رنگت تیرا حال کہہ رہا ہے تیرے ضبط کا فسانہ اس سے پہلے کہ لوگوں کی توجہ ان سے ہٹ کر کھانے کی جانب مبذول ہوتی انہوں نے کمالِ ظرف سے کہہ دیا کہ وہ اُنکے اور کھانے کے درمیان حائل نہیں ہو سکتے اور میں یہاں کچھ اور ان کی اس سمجھداری کی قائل ہو گئی لیکن یہ کیا
ہماری توقع کے بر خلاف اسٹیج کے ٹھیکے داروں نے اچانک اُن کو اپنے نرغے میں لے لیا اور پل بھر میں ہی اُن کو ھال کے پچھلے دروازے سے جانے کہاں لے جایا گیا۔

یہ معاملہ تا حال صیغئہ راز میں ہے۔ بہت دیر تک یہ مضحکہ خیز صورت حال سمجھ نہیں آئی
لوگ اس ناگہانی سچویشن کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ چیئرٹی ڈنر ود عمران خان کا خواب یوں چکنا چور ہوگا۔ کسی کے گمان میں بھی نا تھاعمران خان منظر سے کیا ہٹے جیسے چراغوں میں روشنی نہ رہی ان کے چاہنے والے ان سے سوال جواب کے منتظرمگر انہوں نے اس محبت کو محسوس تک نہیں کیا۔ نہ ان کے جذبات کی قدر کی یورپ بھر سے آئے مہمان بھی سخت مایوسی کا شکار ہو گئے۔

ایک عوامی لیڈر کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کے حکومت تک سب رستے عوام کے دلوں سے ہو کر جاتے ہیں اور میں اس کو عظیم لیڈر مانتی ہوں جو ملک پر نہیں دلوں پر حکومت کرنا جانتا ہو۔

چئیرٹی ڈنر ود عمران خان کا مطلب تو یہی بنتا تھا کہ کہ وہ ھال میں ہمارے ساتھ بیٹھ کر وہی کھانا کھاتے جس میں سے جلنے کی شدید بدبو آ رہی تھی تانکہ ان کہ پتہ چلتا کہ ان کی چاہ میں ہم پر کیا کیا گزر رہی ہے اور انکے ساتھ بیٹھ کر ایسا بد مزہ اور سڑا ہوا کھانا کھانے میں بھی بہت خوشی محسوس کرتے۔ مگر عمران خان صاحب کے اس ناقابل فہم رویے کے پیچھے کیا وجوہات تھیں یہ ابھی تک ہم سمجھنے سے قاصر ہیںعمران خان کے ساتھ ہی کچھ ممبران اُڑن چھو ہو گئے اور جو رہ گئے وہ بھی بغلیں جھانکتے پھر رہے تھے۔

لوگوں کی مایوسی انتہا پر تھی کوئی نالاں کوئی خفا دکھ رہا تھا عمران خان کی صورت امید کا جو ستارا ابھرتا دکھائی دے رہا تھا اس صورت حال کے بعد ڈوبتا نظر آنے لگا ہر کوئی اس عجیب و غریب گتھی کو سلجھانے کی کوشش میں گم نظر آ رہا تھاہم یہ سوچ رہے تھے کہ تحریک انصاف کی ساکھ کو اتنا عظیم نقصان پہچانے کے ذمہ دار ہم کس کو ٹھہرائیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پروگرام کے بعد تمام ممبران کی طرف سے ایک معذرت کا بیان دیا جاتا جس میں آئے ہوئے تمام مہمانوں سے ان کے ساتھ ہونے والی اس نا انصافی کی معافی مانگی جاتی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں یہ بیانات دئے جا رہے ہیں کہ پروگرام بہت شاندار ہوا۔ ھال میں آنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے یہاں یہ ضرور کہوں گی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے نہ کہ ان پر پردہ ڈال کر چھپانے کی کوشش کرنی چاہیے ہال میں ہر کوئی پوچھتا پھر رہا تھا۔

یہ کیا ہوا ۔۔۔ ہم نے جواب دیا ۔۔۔ یہ کیا ہوا ۔۔۔ کیسے ہوا ۔۔۔ کیوں ہوا ۔۔۔ کب ہوا ۔۔۔ جب ہوا ۔۔۔ چھوڑو یہ نہ پوچھو۔

مگر ایک سوال جو ہر شخص کے تاثرات لیے اتنا منہ زور تھا کہ ہمیں پوچھنا ہی پڑے گا۔

لوگوں کے جذبات مجروح کرنے کے مجرم کون ہوئے؟
پاکستان تحریک انصاف فرانس کی انتظا میہ ۔۔ یا ۔۔ عمران خان

مجرم کون (تحریر ۔سمن شاہ)