محوِ نشاطِ بے کراں ارضِ محن میں آ گئے

garden trees

garden trees

محوِ نشاطِ بے کراں ارضِ محن میں آ گئے
لگتا ہے شہر چھوڑ کر ہم کسی بن میں آ گئے

ہجر کے لمبے سلسلے اس پہ غضب کی غیریت
خوابِ بہار کے سبب اجڑے چمن میں آ گئے

رکھتے ہیں کوئی اور خواب سر میں ہے کوئی اور دھن
قیدِ طویل کاٹنے کس کی لگن میں آ گئے

چاروں طرف ہیں میکدے حسن کی ارزشیں بھی ہیں
پیرِ مغاں کی خیر ہو اس کے سخن میں آ گئے

ہاں وہی اک حمام ہے ننگے ہیں جس میں ہم سبھی
اپنے لباس اتار کر رنگ کہن میں آ گئے

عام ہیں بے حجابیاں اٹھتی جوانیوں کے سنگ
خون بھی موجزن سا ہے ولولے تن میں آ گئے

روحیں اداس ہیں بہت دیکھ کے سرد مہریاں
دشتِ حیات الوداع وسوسے من میں آ گئے

ڈاکٹر سعادت سعید