مسلمان دہشتگرد نہیں

 Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

قرآن کریم میں مصائب اورآزمائشوں کے اعلان کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ مصائب میں صابر کو اللہ تعالیٰ خصوصی رحمتوں سے نوازے گا تاکہ مسلمان کو یقین محکم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد شامل حال ہوگی اور انجام بخیر ہوگا ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ۔ان لوگوں کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیںاور ہم سب کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کرجانا ہے ۔ان لوگوں پر اللہ کی طرف سے رحمتیں ہی رحمتیں ہوںگی ور یہی لوگ ہدایت پرہیں۔(البقرہ177)وہ لوگ تنگ دستی ‘بیماری اور جنگ میں صابر ومستقل مزاج ہیں ۔یہی لوگ راستی پر ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں ۔(البقرہ)۔ مسلمان ہمیشہ سے نرم دل ہیں یہ خدا کا احسان ہے کہ مسلمان کسی کودکھ دینا تو دور کی بات ہے مسلمان تومشکل سے مشکل حالات میں بھی خلق خدا کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے دین کے دشمنوں نے اسی نرم دلی کو کمزوری سمجھا اور اسی بات کا فائدہ اٹھا کر اسلام دشمن طاقتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو دھوکے دیئے ہیں۔

حالیہ حالا ت کو دیکھیں تو صاف پتا چلتا ہے دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستا ن کی ہیں لیکن اس کے باوجود پچھلے دس سال سے امریکہ کا یہی الزام ہے کے پاکستان دہشتگردوں کی مدد کر رہا ہے۔اور دنیا بھر کو یہ بتانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے کہ مسلمان ہی دہشتگرد ہیں ۔لیکن ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے میں یہ بات دنیا پر واضع کر دینا چاہتا ہوںکہ کوئی بھی مسلمان دہشتگرد نہیں ہو سکتا ۔اور جودہشتگردی کرتا ہے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔مسلمانوں کا روپ اختیار کرلینے سے کوئی مسلمان نہیں ہو جاتاداڑھی رکھنے ۔پگڑی پہننے سے یاہاتھ میں تسبیح پکڑنے سے کوئی مسلمان نہیں بن جاتا۔

Terrorism

Terrorism

میرے نزدیک مسلمان وہ ہے جس کے شرسے نہ صرف انسان بلکہ تمام مخلوق محفوظ ہو ۔مسلمان تو ظالموں کو بھی معاف کردیتا ہے تو مسلمان بے گناہ اور معصوم انسانوں کی جان کیسے لے سکتا ہے۔برے سے برامسلمان بھی مسجدوں اور درگاہوں پر بم نہیں چلا سکتا یہ وہی لوگ ہیں جو اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں اور مسلمانوں کا ظاہری حلیہ بنا کر دنیا میں دہشتگردی کر رہے ہیںکیونکہ جب بھی یہ مارے جاتے تو پتہ چلتا ان میں سے اکثر کے ختنے تک نہیں ہوئے ہوتے ۔ ان کا چہرہ دنیا کے سامنے ہے اگریہ لوگ مسلمان ہوتے تو کبھی بھی مسجدوں پر حملے نہ کرتے اور اگر پاکستان نے دہشتگردوں کا ساتھ ہی دینا ہوتا تو پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بننے کی کیا ضرورت تھی ؟پاکستا ن کی بے بہا قربانیوں کے باوجود امریکہ کو پاکستان پرالزام لگاتے دیکھ یوں لگتا ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر غلطی کی۔جب اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکا نے افغانستان پر جنگ مسلط کی جس میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی بنا پاکستانی حکمرانوں نے سوچے سمجھے بغیر قوم کو اغیار کی آگ میں جھونک دیا۔

اسامہ ایک عرب باشندہ تھا جسے پاکستانی قوم بالکل نہیں جانتی اسامہ کون تھا کہاں کا پڑھا لکھا تھاکہاں اس نے دہشتگرد ی کی تربیت حاصل کی اور کب امریکہ کے خلاف ہوا پاکستانیوں کو اسامہ سے کچھ لینا دینا نہ تھا لیکن دہشتگردی کے خلاف خودساختہ امریکی جنگ میں اتحادی کاکردار ادا کر کے جو نقصان پاکستانی قوم کو ہوا اس کی تلافی ناممکن ہے۔پاکستا ن کے ہزروں بے گناہ شہری اس جنگ کے رد عمل میں ہونے والی دہشتگردی کا نشانہ بن کرجان قربان کر گئے ۔دنیابھرمیں سبزپاسپورٹ خوف کی علامت بن کر رہ گیاجس کیوجہ سے بیرون ملک پاکستانیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستانی حکمرانوںکونائن الیون کے بعد جنگ میں اتحادی بننے سے پہلے عوامی رائے لینی چاہیے تھی کیونکہ عوام کی اکثریت امریکہ کو ناپسند کرتی ہے۔ اوریہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے انسان امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔

AMERICA

AMERICA

دس سال پہلے گیارہ ستمبر 2001ء کو جو امریکہ میں انسانی تاریخ کی بدترین دہشتگردی ہو ئی بے شک اس میںجاں بحق ہونے والے لوگ بے گناہ اور معصوم تھے ۔اس علم ناک اور درد ناک واقع کے بعد جو امریکہ اور دنیا بھر سے جو ری ایکشن آیاوہ بے جاہ نہ تھا۔نائین الیون کو ہونے والے خون خرابے کی ذمہ داری القائدہ پرعائد ہوئی جس کا سربراہ اسامہ بن لادن کو بتایا گیاجو ان دنوں افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تھا ۔اور امریکہ کو اسامہ بن لادن مطلوب تھا زندہ یا مردہ جسے بلا آخر جنگ کے دسویں برس 2011ء میں ایبٹ آباد اپریشن میں امریکی فورسز نے ماردیا ۔اسامہ مارا گیا لیکن جنگ ابھی باقی ہے۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے اب تک کے سارے معاملات کو غور سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسامہ صرف ایک بہانا تھاجس کی بنا پر امریکی حکمرانوں نے نہ صرف افغانستان اور پاکستان کومشکلات میں ڈالا بلکہ اس نام نہاد جنگ کی وجہ سے امریکی قوم بھی بیرونی قرضے کے بوجھ تلے دب چکی ہے اور ہشتگردی کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے ۔ان حالات میں نہ صرف امریکی عوام کے ذہن میں بلکہ دنیا کے ہر باشعور انسان کے ذہن میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں ۔ جیسے کے کیا امریکی قوم اقتصادی طور پراتنی خوشحال ہے کہ ساری دنیا میں جنگ لڑ سکے ؟ کیاامریکا کودنیا میں امن کی علامت سمجھاجاتا ہے ؟کیا آج تک جہاں جہاںامریکی کارروائی ہوئی وہاں وہاں امن قائم ہو گیا ہے؟کیاامریکا کو کسی بھی جگہ کارروائی کا حق حاصل ہے ؟کیا امریکا نے عراق میں پوری طرح امن قائم کردیا ہے؟ کیا امریکا کے افغانستان میں رہتے ہوئے امن قائم ہوسکتا ہے؟کیا امریکا پاکستان ۔بھارت اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات کا حامی ہے؟امریکی حکمران باربار یہ بیان دیتے ہیں کہ دنیا بھر میںامریکیوںکے مفادات کا تحفظ کیا جائے گاکیا امریکی معیشت کو بیرونی قرضے تلے دبا کر امریکیوں کے مفادات کا تحفظ ممکن ہے ؟کیا امریکہ مضبوط بھارت کو برداشت کرسکتا ہے۔

Pakistan US

Pakistan US

کیا امریکہ پاکستان کو توڑ کر دہشتگردی کی جنگ جیت سکتا ہے؟کیا ساری دنیا کا امن تباہ کر کے امریکی عوام امن سے رہ سکتی ہے؟کیا امریکہ کے تمام اتحادی امریکہ کے شر سے محفوظ ہیں ؟کیا بھارت افغانستان میں اپنی اجارہ داری قائم کرپائے گا؟کیا امریکہ پاکستان میں پائیدار امن کا خواہاں ہے؟ان سوالات کے جواب ہاں میں ہوں یا نہ میں ۔میں آج امریکہ کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں پاکستانی دہشتگرد نہیں اور جودہشتگر دہے وہ پاکستانی نہیںپھر اگر کوئی پاکستان کی سلامتی کوچیلنج کرتا ہے تو قوم ہر وقت تیار ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان جب جب اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے میدان میں اترے تو تعداد میں دشمن سے کم ہو نے اور جنگی سازو سامان کم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد سے سرخرو ہوے ۔کیونکہ مسلمانوں کو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود ہے اس لیے مسلمان کسی پر بھی جنگ مسلط نہیں کرتے۔

ساری کائنات میں اسلام سے زیادہ امن پسند کوئی مذہب نہیں ۔لیکن کفار کو اس بات کا ڈر ہے کہ کفر مٹ جائے گااورحق باقی رہنے والا ہے ۔کفاراللہ کے حکم سے خائف ہو کرمسلمانون کی نسل کشی کرتے آئے ہیں ان کے نزدیک اگرمسلمانوں کی تعداد کم ہو جائے گی تو کون کفرکونیست ونابود کرے گا ۔لیکن یہ وعدہ تو خالق کائنات کا ہے ۔اور اس ذات پاک کو کسی کی ضرورت نہیں پڑتی کچھ بھی کرنے کے لیے۔اسلام دشمن کچھ بھی کرلیں اللہ کا دین ہی باقی رہے گا اور مسلمان تمام تر مشکلات کے باوجود سرخرو ہونگے انشااللہ۔تحریر : امتیاز علی شاکر