میٹھے بول

” القول البدیع ” میں نقل ہے، حضرت سیدنا ابوبکر شبلی بغدادی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے اپنے مرحوم پڑوسی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا، اللہ عزوجل نے آپ کیساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ وہ بولا، میں سخت ہولناکیوں سے دوچار ہوا، منکر نکیر کے سوالات کے جوابات بھی مجھ سے نہیں بن پڑ رہے تھے۔

healthy tongue

healthy tongue

میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا۔ اتنے میں آواز آئی، ” دنیا میں زبان کے غیر ضروری استعمال کیوجہ سے تجھے یہ سزا دی جا رہی ہے۔

اب عذاب کے فرشتے میری طرف بڑھے۔ اتنے میں ایک صاحب جو حسن و جمال کے پیکر اور معطر معطر تھے وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہو گئے اور انہوں نے مجھے منکر نکیر کے سوالات کے جوابات یاد دلا دیے اور میں نے اسی طرح جوابات دے دیے۔

الحمد للہ عذاب مجھ سے دور ہوا۔ میں نے ان بزرگ سے عرض کی، اللہ عزوجل آپ پر رحم فرمائے آپ کون ہیں؟
فرمایا: تیرے کثرت کیساتھ درود شریف پڑھنے کی برکت سے میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے ہر مصیبت کے وقت تیری امداد پر مامور کیا گیا ہے۔

اسی طرح خراسان کے ایک بزرگ رحمہ اللہ تعالیٰ کو خواب میں حکم ہوا، تاتاری قوم میں اسلام کی دعوت پیش کرو۔

اسوقت ہلاکو خان کا بیٹا تگودار خان برسر اقتدار تھا۔ وہ بزرگ رحمہ اللہ تعالیٰ سفر کر کے تگودار خان کے پاس تشریف لے آئے۔ باریش مسلمان مبلغ کو دیکھ کر اسے مسخری سوجھی اور کہنے لگا ”
میاں! یہ تو بتاؤ تمہاری داڑھی کے بال اچھے یا میرے کتے کی دم؟

بات اگرچہ غصہ دلانے والی تھی مگر چونکہ وہ ایک سمجھدار مبلغ تھے لہٰذا نہایت نرمی کے ساتھ فرمانے لگے
” میں بھی اپنے خالق و مالک اللہ عزوجل کا ” کتا ” ہوں اگر جان نثاری اور وفا داری سے اسے خوش کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو میں اچھا ورنہ آپکے کتے کی دم مجھ سے اچھی ہے جبکہ وہ آپکا فرمانبردار اور وفادار ہے۔

چونکہ وہ ایک باعمل مبلغ تھے، غیبت و چغلی، عیب جوئی اور بدکلامی نیز فضول گوئی وغیرہ سے دور رہتے ہوئے اپنی زبان ذکر اللہ عزوجل سے ہمیشہ تر رکھتے تھے لہٰذا انکی زبان سے نکلے ہوئے میٹھے بول تاثیر کا تیر بن کر تگودار خان کے دل میں پیوست ہو گئے کہ جب اس نے اپنے ” زہریلے کانٹے ” کے جواب میں اس باعمل مبلغ کیطرف سے خوشبودار بات سنی تو پانی پانی ہو گیا اور نرمی سے بولا۔
آپ رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے مہمان ہیں میرے ہی یہاں قیام فرمائیے۔

چنانچہ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ اسکے پاس مقیم ہو گئے۔ تگودار خان روزانہ رات آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی شفقت کیساتھ اسے نیکی کی دعوت پیش کرتے۔

آپ کی سعی پیہم نے تگودار خان کے دل میں اسلامی انقلاب برپا کر دیا۔ وہی تگودار خان جو کل تک اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھا، آج اسلام کا شیدائی بن چکا تھا۔

اسی باعمل مبلغ کے ہاتھوں تگودار خان اپنی پوری تاتاری قوم سمیت مسلمان ہو گیا۔ اسکا اسلامی نام ” احمد ” رکھا گیا ۔

تاریخ گواہ ہے کہ ایک مبلغ کے میٹھے بول کی برکت سے وسط ایشیا کی خونخوار تاتاری سلطنت اسلامی حکومت سے بدل گئی۔ اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو۔

اگر تگودار کے تیکھے جملے پر وہ بزرگ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ غصے میں آ جاتے تو ہرگز یہ نتائج برآمد نہ ہوتے۔ لہٰذا کوئی کتنا ہی غصہ دلائے ہمیں اپنی زبان کو قابو میں ہی رکھنا چاہیے کہ جب یہ بے قابو ہو جاتی ہے تو بعض اوقات بنے بنائے کھیل بھی بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔

میٹھی زبان ہی تو تھی کہ جس کی شیرینی اور چاشنی نے تگودار خان جیسے وحشی اور خونخوار انسان بد تر از حیوان کو انسانیت کے بلند و بالا منصب پر فائز کر دیا۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

زبان اگرچہ بظاہر گوشت کی ایک چھوٹی سی بوٹی ہے مگر یہ خدائے رحمٰن عزوجل کی عظیم الشان نعمت ہے۔ اس نعمت کی قدر شاید گونگا ہی جان سکتا ہے۔ زبان کا درست استعمال جنت میں داخل اور غلط استعمال جہنم سے واصل کر سکتا ہے۔

اگر کوئی بدترین کافر بھی دل کی تصدیق کیساتھ زبان سے ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ” صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پڑھ لے تو کفرو شرک کی ساری گندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔ اسکی زبان سے نکلا ہوا یہ کلمہ طیبہ اسکے گزشتہ تمام گناہوں کے میل کچیل کو دھو ڈالتا ہے۔

اس کلمہ پاک کے باعث وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ اس روز تھا جس روز اسکی ماں نے اسے جنا تھا۔ یہ عظیم انقلاب دل کی تائید کیساتھ زبان سے ادا کیے ہوئے کلمے شریف کی بدولت آیا۔

اے کاش! ہم بھی اپنی زبان کا صحیح استعمال کرنا سیکھ لیں۔ اللہ عزوجل اور آقا دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی کے مطابق اگر زبان کو چلایا جائے تو جنت میں گھر تیار ہو جائے گا۔

Holy Quran

Holy Quran

اس زبان سے ہم تلاوت قرآن پاک کریں۔ ذکر اللہ عزوجل کریں، درود و سلام کا ورد کریں، تو انشاء اللہ عزوجل ہمارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔

” مکاشفة القلوب ” ( مکاشفات القلوب) میں ہے حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔
” اے رب کریم عزوجل جو اپنے بھائی کو بلائے اور اسے نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے ، اس شخص کا بدلہ کیا ہو گا؟
فرمایا ” میں اسکے ہر کلمے کے بدلے ایک سال کی عبادت کا ثواب لکھتا ہوں اور اسے جہنم کی سزا دینے میں مجھے حیا آتی ہے۔

تحریر: ملک عزیر