میڈل

girl knocking at door

girl knocking at door

کسی دستک پردروازہ کھولنا کبھی عذاب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ مگر سلطانہ کی شادی سے ایک دن پہلے مدھم سی آہٹ نما دستک پردروازہ کھولنا میرے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔کیونکہ دروازے پر سکڑی سمٹی وہی سلطانہ تھی جس پر کافی عرصہ پہلے ڈورے ڈالنے کی بھر پور کوشش میں ناکامی پر میں اسے ناقابلِ حصول سمجھ کر کبھی کا بھلا چکا تھا۔

میری ہر فنکارانہ پیش قدمی پر اس کی بے نیازانہ مسکراہٹ مجھے ابھی بچہ ہونے کا طعنہ دیتی تھی ۔ عمر میں صرف دو سال بڑی ہونے کے باوجود اس کا رویہ میرے ساتھ ہمیشہ بزرگانہ ہوتا تھا۔ مگر دل نے اسے کبھی بڑا تسلیم نہیں کیا کیونکہ دل ہر کسی کو اپنے ہی پیمانے پر ماپتا ہے۔

نہ جانے سلطانہ کے اندر مجھے کس چیز کی تلاش تھی کہ میری نظریں ہمیشہ اس کے تعاقب میں رہتیں۔۔۔۔۔ اس وقت بھی جب وہ محلے کے ہم سن لڑکوں کو اپنی دلبرانہ مسکراہٹ اور کبھی کبھار دو چار شوخ جملوں سے سرشار کرنا اپنی محبوبانہ شان کے لیے ضروری سمجھتی تھی۔۔۔۔۔۔ اسی لیے محلے کے لڑکے اکثر اس کی راہ میں دیدہ و دل بچھائے محوِ انتظار رہتے تھے اور وہ بھی کسی کو مایوسی کی حد تک نہ پہنچنے دیتی تھی۔

مجھے اس کی کسی بات پراعتراض نہیں تھا۔ اگر چڑ تھی تو اپنے ساتھ اس کے رویے پر گھر میں باجیوں کی کوئی کمی نہ تھی ۔۔۔ جو وہ بھی مجھ پر باجی بن کر مسلط ہونا چاہتی تھی۔ اس کی ناصحانہ نظریں مجھ پر کبھی اس انداز میں نہ پڑیں جس انداز کا میں متمنی تھا۔

میرے جذبات کی ترجمان میری نظروں کی سفارتیں اکثربے نیل و مرام واپس لوٹیں تو دل کے براہِ راست مذاکرات پرمجبور کرنے پرایک دن میری زبان کیا کھلی کہ گویا اپنی ہستی کی سمجھ آ گئی۔

اسکی آنکھوں کے بدلتے رنگوں نے گلہ کیا تمہیں کیا سمجھا تھا اور تم بھی دوسروں جیسے نکلے اس کے ساتھ ہی میرے جذبات سرد پڑ گئے۔ مجھ پر ندامت کے بادل ایسے چھائے کہ خود کو بدلنے کی دھن واقعی مجھے بدلنے پر مجبور ہو گئی۔ زندگی کی ترجیحات میں ایسی اکھاڑپچھاڑ ہوئی کہ سلطانہ فہرست سے ہی خارج ہو گئی ۔ مجھے یاد ہی نہ رہا کہ سلطانہ نام کی کسی لڑکی کو بھی جانتا ہوں ۔ یہاں تک کہ کافی عرصے بعد اس کی شادی کا کارڈ دیکھ کر بھی میرے دل میں کوئی ہلچل نہ ہوئی۔

lady at door

lady at door

کسی دستک پر دروازہ کھولنا کبھی عذاب نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سلطانہ کی شادی سے ایک دن پہلے۔ مدھم سی آہٹ نما دستک پر دروازہ کھولنا میرے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھا کیونکہ دروازے پر سکڑی سمٹی وہی سلطانہ تھی جو کافی عرصہ پہلے میری ہر پیش قدمی کے جواب میں ہمیشہ گریزپا رہی اس دن اس کی آنکھوں میں مچلتی خواہشیں کچھ اور ہی کہانی سنا رہی تھیں۔ کمرے میں داخل ہو کر مجھ پر کسی کمبل کی طرح چھا گئی اور کہنے لگی اپنی دل آزاری پر مجھے معاف کر دینا میں ہمیشہ سے تمہاری تھی آج بھی تمہاری ہوں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ تم بھی مجھے دوسروں کی طرح چاہو میری نظر میں تم سب سے مختلف ہو منفرد ہو تمہارا چاہنے کا انداز بھی دوسروں سے مختلف ہو تمہیں جو بھی ملے دوسروں سے مختلف ملے میں بھی تمہاری طرح دوسروں سے مختلف رہنا چاہتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے تم سے پہلے کوئی ہاتھ بھی نہ لگائے۔ کل میں کسی اور کی ہو جائوں گی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور مجھے زندگی بھر کے لیے اپنا لے مجھے تم اپنا لو۔ خواہ ایک رات کے لیے ہی سہی۔ میرے جسم پر اپنے نام کی مہریں ثبت کر دو ایسی نادیدہ مہریں جو میرے پاس تمہارے پیار کے حصول کے سرٹیفکیٹ کے طور پر ہمیشہ محفوظ رہیں۔۔۔ مجھے مایوس نہ کرو اپنے پیار کا میڈل میرے گلے میں ڈال دو۔ اپنے پیار کا میڈل مجھے پہنا دو۔۔۔۔۔۔۔ اپنے پیار کا۔۔۔۔۔۔۔۔میڈل۔۔۔۔۔مجھے پہنا دو۔۔۔۔پہنا دو اس کی سسکی نما آواز مدھم سے مدھم ہوتی گئی اور میرے اندر ایک طوفان سا اٹھنے لگا۔

boy and girl

boy and girl

سلطانہ کو اپنی دسترس میں دیکھ کر پرانی خواہشات نے سر بھی اٹھایا۔ مگر اس کی اچانک اور غیر متوقع خود سپردگی نے میرے جذبات کو یکدم سرد کر دیا۔ اس کی پیاسی نظریں میرے چہرے کا طواف کرتی رہیں۔ اس کے ہاتھ میرے سرد جسم کو گرماتے رہے۔ اس کا جسم میرے وجود کوجگاتا رہا۔۔۔۔ مگر میرے تصور میں ایک اجنبی آ کھڑا ہوا۔ اس اجنبی کی آنکھیں مجھے اپنی امانت کا امین ہونے کا طعنہ دیتی رہیں اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کوشش کے باوجود سلطانہ کو اپنے پیار کا میڈل نہ پہنا سکا۔۔۔۔۔۔۔ سلطانہ کی واپسی پر اس کی مایوس نظروں کا الوداعی طنز آج بھی میری روح پر ایک عذاب ہے۔

اگلے دن اس کی شادی ہو گئی۔ وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی اس کے انگ انگ سے آسودگی اور طمانیت جھلکتی تھی۔ اس ایک رات کا عذاب کبھی کبھی مجھ پر بہت شدت سے نازل ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ کچھ عرصے بعد سب کچھ ذہن سے نکل گیا۔ معاشی اور معاشرتی مجبوریاں انسان کے ذہن سے بہت کچھ کھرچ دیتی ہیں۔

True Love medal

True Love medal

کسی دستک پر دروازہ کھولنا کبھی عذاب نہیں ہوتا۔۔۔۔ مگر سلطانہ کی شادی کے کافی عرصہ بعد ایک تیز اور پراعتماد دستک پردروازہ کھولنا واقعی میرے لیے ایک عذاب تھا۔۔ کیونکہ دروازے پر وہی سلطانہ اپنے بچے کو گود میں لیے کھڑی تھی جو کبھی پہلے بھی میرے دروازے پر میرے پیار کا میڈل لینے آئی تھی اور مایوس واپس لوٹی تھی۔ مگر آج اس کی آنکھوں میں فخر اور کچھ پا لینے کی مکمل آسودگی تھی اس کے چہرے پر ممتا کا نور تھا اور اس کی ذات میں خود آگاہی کااعتماد تھا۔آج اس نے دہلیز پار نہیں کی بلکہ کھڑے کھڑے ہی اپنا بچہ میرے سامنے کیا اور کہا دیکھو بالکل تمہارے جیسا ہے۔

تحریر: رفیع تبسم