وزیر اعظم کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی

supreme court

supreme court

اسلام آباد: (جیو ڈیسک) سپریم کورٹ میں وزیر اعظم کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی، جسٹس آصف کھوسہ کہتے ہیں وزیر اعظم بھی ہمارا ہے صدر بھی ہمارا، خط لکھ دیں کسی کو سزا دلانا نہیں چاہتے، ملزم کی نہیں پاکستانی پیسے کی بات ہے۔ کیس کی سماعت جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے کی۔ وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے صدر کو حاصل عالمی استثنی پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہر ریاستی سربراہ کی طرح صدر زرداری کو بھی سول اور فوجداری مقدمات میں عالمی استثنی حاصل ہے، اقوام متحدہ اس حوالے سے دو سو بتیس صفحات کی کتاب شائع کر چکی ہے، استثنی کسی شخصیت کے لئے نہیں خودمختار ریاست کے احترام میں ہے، جب تک زرداری صدر ہیں خط لکھنا ملکی وقار کے خلاف ہے، کیونکہ عدالتی حکم میں سوئس مقدمات کھولنے کی واضح بات کی گئی۔

خط کا مطلب ہے ہم تسلیم کر لیں کہ صدر کے خلاف مقدمہ چل سکتا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیر اعظم عدالتی حکم پر عملدرآمد سے گریز نہیں کر رہے، وقتی طور پر مشکل درپیش ہے، جب عدالتی حکم آجائے گا تو وزیر اعظم کے پاس صرف دو آپشن ہوں گے، خط لکھیں یا سزا بھگتیں۔ سماعت کے دوران جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دئے کہ اگر صدر کو استثنی حاصل ہے تو اس صورت میں آپ سوئس عدالت کو یہی بات لکھ سکتے ہیں، وفاق کا موقف این آر او نظر ثانی کیس میں مسترد ہوچکا ، اب وزیراعظم کے پاس گریز کی کوئی گنجائش نہیں، خط لکھنے کے لئے آپ کو وقت دینے کو تیار ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ وزیر اعظم اپنا کام کریں، صدر اپنا معاملہ خود اٹھائیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ صدر سوئس عدالتوں میں استثنی مانگ لیں، پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ سزا کے بغیر بھی خط لکھا جا سکتا ہے۔ آپ نے عملدرآمد نہ کرکے سوئس ملزمان کو بھی استثنی دلایا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جس شخص کو استثنی درکار ہو اسے عدالت سے رجوع کرنا چاہئے، ایک شخص حکم سے اس لئے انکاری ہے کہ کسی دوسرے کو استثنی حاصل ہے، ہم کیوں کہیں گے کہ صدر کو سزا دی جائے، وزیر اعظم بھی ہمارا ہے صدر بھی ہمارا ، خط لکھ دیں معاملہ ختم ہو جائے گا، ملزم کی نہیں پاکستانی پیسے کی بات ہے،آپ حکم کی تعمیل کردیں کسی کو جیل نہیں بھیجوانا چاہتے۔ اس سے قبل اعتزاز احسن نے فیئر ٹرائل سے متعلق آرٹیکل دس اے پر دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر عمل کیلئے خود کارروائی نہیں کر سکتی، بلکہ معاملہ متعلقہ ہائی کورٹ کو بھیجنا چاہیے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل میں فیصلہ ہائی کورٹ کو بھیجوانا ضروری نہیں، آپ نے یہ معاملہ انٹرا کورٹ اپیل میں بھی اٹھایا، اپیلٹ بنچ کے فیصلے کے بعد یہ باب بند ہو چکا۔