وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی

beautiful eyes

beautiful eyes

وہ لڑکی بھی ایک عجیب پہیلی تھی
پیاسے ہونٹ تھے آنکھ سمندر جیسی تھی

سورج اس کو دیکھ کے پیلا پڑتا تھا
وہ سرما کی دھوپ میں دھل کر نکلی تھی

اس کو اپنے سائے سے ڈر لگتا تھا
سوچ کے صحرا میں وہ تنہا ہرنی تھی

آتے جاتے موسم اس کو ڈستے تھے
ہنستے ہنستے پلکوں سے رو پڑتی تھی

آدھی رات گنوا دیتی تھی چپ رہ کر
آدھی رات کے چاند سے باتیں کرتی تھی

دور سے اُجڑے مندر جیسا گھر اس کا
وہ اپنے گھر میں اکلوتی دیوی تھی !

موسم سے نازک جسم سحر کو دُکھتا تھا
دیے جلا کر شب بھر آپ پگھلتی تھی !

تیز ہوا کو روک کے اپنے آنچل پر
سوکھے پھول اکٹھے کرتی پھرتی تھی

سب پر ظاہر کر دیتی تھی بھید اپنا
سب سے اک تصویر چھپائے رکھتی تھی

کل شب چکنا چور ہوا تھا دل اس کا
یا پھر پہلی بار وہ کھل کر روئی تھی

محسن کیا جانے کیوں دھوپ سے بے پروا
وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی تھی؟

محسن نقوی