وہ کانچ جیسے بدن کی گرمی

past memories

past memories

وہ کانچ جیسے بدن کی گرمی وہ اُسکے لمس کی حرارتیں
مجھے یاد ہیں اب بھی تمام وہ پچھلے برس کی شرارتیں

تمہیں وہ منزلیں بھی بے نشاں اور راستے تھے بے بہا
انہیں راستوں میں بھٹک گئیں اپنی پرانی محبتیں

تیری آرزو کی تو نہیں ملی تیرے غم کو مے میں ڈبو دیا
تیرے بعد تو یہ ہی ساتھ ہیں کروں ترک کیسے یہ عادتیں

یہ ہے آرزو گر ہو کہیں تجھ سے مرا جو سامنا
مجھے دیکھ کر تو بھی کہہ اُٹھے ہوئیں ختم تم پر روایتیں

یہ میرے شعروںمیں تیرے قصے سنا رہے ہیں کہانی امجد
دردِ دل اب تک جواں ہے ہیں باقی جنوں کی حکایتیں

امجد شیخ