پاکستان کی ساسو ماں ہیلری کا دھمکی والا لہجہ اور ہماری قیادت

hillary clinton

hillary clinton

اہلِ دانش کی اکثریت اِس بات پر متفق ہے کہ سمجھ دار لو گ بحث وتکرار نہیںکرتے کیوںکہ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اِس سے سوائے آپسمیں رنج و غم پیداہونے کے اور کوئی مفیدنتیجہ برآمدنہیں ہوتاہے اوراکثر کے نزدیک یہ بھی ہے کہ ایک غیر ضروری بحث کسی بھی عزیز ترین دوست اوررشتہ دارکو بھی پل بھر میں جداکرسکتی ہے یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پچھلے کئی دنوںاور مہنیوں سے امریکانے پاکستان پر جو اپنے الٹے سیدھے الزامات لگاکر بحث و تکرارکا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کررکھاہے وہ کسی بھی طور پر امریکا کو زیب نہیں دیتاہے کیوں کہ یقینی طور پر اِس سے پاکستان کی دل آزاری ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے پاکستان نے بھی دل برداشتہ ہوکر امریکا کی جانب دوستی کے اپنے بڑھے ہوئے ہاتھ کو بھی اب پیچھے کی طرف کھینچناشروع کردیاہے اِس کا احساس شدت سے امریکیوں کو بھی ہورہاہے اور یوںیہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے کہ کسی بھی معاملے میں غیرضروری بحث جہاں عزیز ترین دوست اور رشتہ دار کو دورکرسکتی ہے تو وہیں یہ بات بھی اب سامنے آتی جارہی ہے کہ غیر ضروری بحث پاکستان اور امریکا جیسے دوایسے ممالک جن کا دہشت گردی کے خلاف ایک موقف تھا اِنہیں بھی جداکرسکتی ہے۔ بہرحال قارئین حضرات یہ بات بھی اپنے ذہن میں ضرور رکھیں کہ امریکانے سانحہ نائن الیون کے بعد ہم سے اورہم نے اِس کی ایک دھمکی کے بعد اِس سے باحالاتِ مجبوری دوستی کا جو ہاتھ بڑھایاتھاتو گزشتہ دس ، گیارہ سالوں میں ایک طرف ہم ہیں کہ تب سے اب تک امریکی مفادات کے لئے بکرابنے ہوئے ہیں یعنی ایک ایسا صدقہ و خیرات کا بکراجسے امریکا سے سوائے ڈالروں کے اور کسی آوٹ پٹ کی کوئی اورتمنا ہی نہیںہے اور نہ ہی جو اِس سے اور کچھ چاہتاہے مگر دنیا کی اور تمام لالچ سے بے نیاز ہونے کے باوجود بھی ہم امریکاکے لئے وہ سب کچھ کرچکے ہیں ،کررہے ہیں اور مستقبل میں بھی اِس سے کہیں زیادہ بڑھ کرکرنے کے آزرومندہیں جس کا دنیاتصور بھی نہیں کرسکتی ہے۔  جبکہ دوسری جانب امریکا ہے کہ وہ ہماری جانی و مالی غرض کے ہر قسم کی قربانیوں اور جی حضوری کے باوجود بھی ہم سے اب تک اس طرح سے اپنی دوستی کے تقاضے پورے نہیں کرپارہاہے جس طرح دوستی کے تقاضے کسی دوست کی دوستی کے دوران درپیش ہوتے ہیں اور الٹایہ ہے کہ پاکستان کے اب تک پیش کئے جانے والے ہرہر کردار پر شک کرنے اور اِسے بلیک میل کرنے والی پالیسی پر گامزن رہ کر دنیابھر میں پاکستان کے کردار کو مختلف اقسام کے الزامات لگاکر مشکوک بنارہاہے۔جبکہ ایک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان انتہائی خندہ پیشانی اور تدبر سے ہر منفی اور بے بنیادی امریکی الزام اور بہتان تراشی کا حق و سچائی کے ساتھ جواب دے رہاہے اور اِسے قائل کرنے اور سمجھانے کی مکمل سعی کررہاہے کہ جن اقسام کے امریکا پاکستان پر الزامات لگارہاہے وہ غلط ہیںاور اِسی طرح جبکہ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اِن امریکی بہتان تراشی سے پاکستان کا دور کابھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور امریکا ہے کہ یہ اپنے مفادات کی آڑ میں اتنااندھاہوچکاہے کہ اِسے اِس کے سواکچھ اور سوجھائی نہیں دے رہاہے اور وہ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے اور پاکستان پر اپنادباو ڈالنے کے لئے زوردار الفاظ اور دھمکی آمیز لب ولہجے اور تلخ کلامی سے اپنے کمزرواستدلال کی دلیل دیتارہتاہے اور یہی وجہ ہے کہ جب سے پاکستان نے اپنی خودمختاری اور استحکام کا احساس کرتے ہوئے امریکا کے سامنے اپنی بقا و سا لمیت اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کا موقف رکھاہے تو امریکا آگ بگولاہوگیا ہے کہ پاکستان نے اِس کی نفی کیوں کردی ہے اِس لئے توکہاجاتاہے کہ جب تک گفتگو دلائل اور ایک دوسرے کو قائل کرنے کے لیے رائے زنی تک محدودرہتی ہے تب تک تو یہ علم کے اظہار کا درجہ رکھتی ہے اور جب گفتگو بحث کا انداز اختیارکرلے تو جہالت کا دور شروع ہوجاتاہے اور اب اِس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک پاکستان امریکا کو اپنے دلائل سے قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف رہااس وقت تک تو بات ٹھیک تھی مگر جب پاکستان امریکی ساز ش کو جان گیااور پہچان گیااور اِس کے گھناونے عزائم کو پرکھ گیاتو اِس نے خطے میں کسی بھی امریکی مفاد کے لئے اپناکردار اداکرنے سے معذرت کرلی اورامریکا پر دوٹوک الفاظ میں واضح کردیاکہ پاکستان اب کسی بھی امریکی مفاد میں اپنی آنکھیں بندکرکے اپناکردار ادانہیں کرسکتاہے اور اب ہر بات برابری کی سطح پر کی جائے گی تو امریکا جہالت پر اترآیاہے یعنی یہ کہ اب امریکا اپنے کمزرو دلائل کے ساتھ پاکستان پر اپنادباو برقرار رکھنے کے لئے سخت الفاظ استعمال کررہاہے۔ جیساحالیہ دنوں دوروزہ دورے پر پاکستان آئی ہوئیں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان سے اپنے سخت لب ولہجے میں ایک بار پھر کہاہے حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت ترین اور فیصلہ کن کارروائی برسوںنہیں ،مہینوں نہیں اب ہفتوں اور دنوں میں کی جائے اور یہ بات بھی انہوں نے کہی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اہم اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان پر لازمی ہے کہ وہ ہمیں خوش کرنے کے لئے امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپناکردار اداکرے اوراِس موقع پر لومڑی جیسی آنکھوں والی تیز وچالاک اور انتہائی شاطر پاکستانیوں کی ساسوماں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستانی کی نومولودجمہوری حکومت کے کرتادھرتاوں سمیت اعلی عسکری قیادت کو بھی مخاطب کرکے دوٹوک الفاظ میں واضح کرتے ہوئے کہاکہ یہ ٹھیک ہے اورجو ہم بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگرچہ عراق اور افغانستان تو نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی توایک حقیقت ہے کہ اب پاکستانی قیادت کو میری باتوں کو وارننگ ہی سمجھناچاہئے اور اِس کی روشنی میں خود فیصلہ کرناچاہئے کہ اِن کے حق میں کیابہترہوسکتاہے اور کیانہیں …؟؟اور ویسے بھی امریکا پاکستان کے ساتھ امدادواور قرضوں کی شکل میں بہت کچھ کرتا رہتاہے اور اب پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ یہ بھی امریکیوں کے احسانات کو اتارنے کے لئے حقانی نیٹ ورک اور دوسرے امریکادشمن عناصرکے خاتمے کے لئے بہت کچھ کرے۔
اِن کہنا تھاکہ جب حقانی نیٹ ورک امریکاکے لئے خطرہ ہے تو یقینی طور پرامریکی پارٹنر ہونے کے ناطے یہ پاکستان کا بھی اتناہی دشمن ہوگا ۔جبکہ ہم سمجھتے ہیں جوکہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کو نہ تو کبھی حقانی نیٹ روک نے اپنادشمن جاناتھا اور نہ آج تک پاکستانی حقانی نیٹ ورک کو اپنے لئے کوئی خطرہ تصور کرتے ہیں تو پھر یہ با ت واضح ہوجاتی ہے کہ امریکا جو افغانستان میں بری طرح سے ناکام ہوچکاہے وہ افغانستان سے نکل بھاگنے کے مختلف بہانے تلاش کررہاہے اور وہ اپنی سبکی اور بوکھلاہٹ میں ایسے الٹے سیدھے کام اور اقدامات کررہاہے جن سے اِسے یہ امید ہوچلی ہے کہ شائد اِس کی اِن غلطیوں سے ہی اِس کے لئے کوئی بہتری کی راہ نکل آئے اور یہ افغانستان سے جھوٹے منہ ہی صحیح اپنی کامیابی کا بیچ سینے پہ سجائے نکل بھاگے گا۔امریکا چاہئے پاکستان سے متعلق جتنابھی زہر اگل ڈالے مگر دنیا اِس حقیقت سے قطعاانکار نہیں کرسکتی ہے کہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے افغانستان میں قیام امن کے لئے ہر قدم پر اپنی قربانی دی ہے آج افغانستان میں نیٹوافواج کو جو آزادی حاصل ہے یہ بھی پاکستان کے مرہونِ منت ہے آ ج اگر پاکستان امریکا کا اتحادی ہونے سے انکار کردے اور اِس سے نکل جائے تو سوفیصد امریکی افواج ایک لمحہ بھی افغانستان میں نہیں ٹھیر سکے گی مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی امریکیوں کی ناک اورآنکھیں پاکستان کے معاملے پر چڑھی ہی رہتی ہیں اور ابامہ انتظامیہ ہویا امریکی عسکری ٹولہ سب کا سب پاکستان سے ناراض ہی رہتاہے اِس کی وجہ اب تک سمجھ نہیں آسکی ہے کہ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت کا کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی امریکی سول اور فوجی حکام اِس کے ہی گن گاتے رہتے ہیںاِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں کی ساسوماں جیسی عمر رسیدہ موجودہ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن ہوں یا اچھی خاصی بڑی عمر کی پاکستانیوں کی نندجیسی سابقہ وزیرخارجہ کونڈالیزراس ہوں ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ہی اپنے اپنے کردار اور عہدے کے لحاظ سے بڑی چھٹی ہوئیں اور چالاک خواتین ہیںجنہوں نے اپنی حکومتوں کی توقعات سے بڑھ کر پاکستان کے معاملے میںاپنی خدمات پیش کی ہیں اور دونوں ہی پاکستانی حکام کو اپنی چاپلوسیوں سے ایسے چکمے دیتی ہیں کہ پاکستانی حکام اِن کی باتوں کا اس طرح سے مطلب اخذنہیں کرپاتے جس انداز سے یہ اپنی بات کہہ جاتی ہیں ۔اِدھر ایک ہماری صرف 33سالہ بھولی بھالی اور معصوم سی موجودہ وزیرخارجہ حناربانی کھر ہیںجنہیں ہر لحاظ سے ایک اسلامی ملک کی وزیر خارجہ سے کہیں زیادہ ایک مکمل مسلم خاتون کا بھی وقار بحال رکھناہوتاہے اور ملکی اور عالمی میڈیاکے سامنے اپنے ملکی اور مذہبی قوانین اور اصول وضابطوں کابھی خصوصی خیال رکھناپڑتاہے اور اپنے عہدے کے لحاظ سے اپنے ملکی موقف کو بھی دوٹوک الفاظ میں واضح کرنااِن کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے تو وہیں اِنہیں اپنی ذاتی تشخص کا بھی احترام کراناضروری ہوتاہے اِن تمام پابندی کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری موجودہ وزیرخارجہ حناربانی کھر جس طرح اپنی وزارت کا حق اداکررہی ہیں آج دنیامیں کوئی اِن جیسانہیں ہے جو اپنی کم عمری اور اپنی نپے تلے لب و لہجے اور انتہائی سادہ اور بامقصد الفاظ اور خیال کے ساتھ اپنا موقف نہ صرف ملکی بلکہ عالمی میڈیا کے سامنے بھی بیان کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ہمیں ایک بات پر حیرت اور پریشانی اس وقت ہوئی جب ایک امریکی اخبار نے اپنے یہاں ایک خبر کچھ اِس طرح شائع کی جسے پڑھ کر ہمیں یہ محسوس ہواکہ جیسے یہ اخبار ہماری قوم کی بیٹی اورموجودہ وزیرخارجہ حناربانی کھرکی جیسے حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اِنہیں یہ مشورہ دے رہاہے کہ حناکے پاس تجربہ کا فقدان ہے اور اِنہیں فیشن کی بجائے کارکردگی پر دھیان دیناچاہئیتو ہمیں بہت غصہ آیاکہ یہ اخبار کون ہوتاہے ہماری وزیرخارجہ سے متلعق ایسے حوسلہ شکن الفاظ تحریرکرنے والا …. بہرحال ! اخبار نے اپنی خبر میں لکھاکہ 33سالہ پاکستان کی وزیرخارجہ حناربانی کھرگزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر گئیں ہوئیں امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے ساتھ اسلام آباد میں جب ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں تو اِن میں تجربے کا فقدان پوری شدت سے محسوس کیاگیااخبار لکھتاہے کہ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ ایک امریکی تعلیم یافتہ حناربانی کھرآخرکہناکیاچاہتی ہیں جبکہ ادھر دوسری جانب اپنے زمانے کی منجھی ہوئیں سترچوہے کھاکر وزیرخارجہ کے عہدے پر پہنچنے والی امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن تھیں جن کا لب و لہجہ عیارانہ اور مکارانہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ چاپلوسیوں کی چاشنی میں غوطہ زن رہنے والا انداز بھی تھا جو ایک طرف ڈنکے کی چوٹ پر امریکی پیغام بھی میڈیاکے ذریعے پاکستان سمیت دنیابھر کو دے رہیں تھیں تو وہیں ساتھ ساتھ پاکستانی سول اور عسکری قیادت کو دھمکی آمیز لہجے میں وہ سب کچھ کہہ جارہیں تھیں جو آج پاکستان سمیت دنیابھر میں موضوع ِ بحث بناہواہے اخبار لکھتاہے کہ کیوں کہ امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں پاکستانی وزیرخارجہ حناربانی کھر کا کوئی تجربہ نہیں ہے اِس لئے حناکھراورہیلری کلنٹن کا کوئی مقابلہ نہیں ہے پاکستان کو چاہئے کہ وہ ہیلری جیسے تیز طرار اور دنیا کو گھومادینے والی خواتین کے مقابلے کے لئے اپنے یہاں سے کوئی ایسی ہی تیز طرار اور پینترے بدلنے والی خاتون لائے تو پھر امریکی اور پاکستانی وزیرخارجہ کا مقابلہ کیاجاسکتاہے ہے ورنہ تو نہیں ….امریکی اخبار کی خبر پر ہم صرف اپنی وزیرخارخہ حناربانی کھر کی حمایت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو مخالب کرکے امریکی اخبار سے صرف یہی کہناچاہیں گے کے دنیاجانتی ہے کہ کسی کو لاجواب کرنااور بات ہے ، قائل کرنادوسری بات ہیتو امریکی اخبار، امریکی انتظامیہ ، امریکی وزیرخارجہ اور امریکی فوجی حکام یہ بات نہ صرف سن لیں بلکہ مان بھی جائیں کہ امریکی زیرخارجہ چیخ چلاکراور اپنی اسکرٹ والی(گوری گوری نیم برہینہ) ٹانگوں سے کسی کوتھوڑی دیر کے لئے تو بے شک لاجواب کرسکتی ہیں مگر ہمارے وزیرخارجہ حناربانی کھر جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہیلری غلط کہتی ہیں اور غلطی پر بھی ہیں مگر یہ حنا ہی ہیں جواپنے مخصوص لب ولہجے اور مدبرابہ جملوں سے ہیلری کلنٹن سمیت سب کو قائل کرنے کا فن صرف ہما ری حناربانی کھر کو ہی آتاہے۔ یہاں ہم حکیم لقمان کا ایک قول نقل کریں گے کہدوسروں کے غلط خیال کو بھی غلط نہ کہوبلکہ خوشگوار اندازمیں اِس کی سوئی ہوئی قوت انصاف کو بیدارکردو حکیم لقمان کے اِس قول پریقیناآ ج ہماری موجودہ 33سالہ وزیرخارجہ حناربانی کھرعمل کررہی ہیں۔اور اِس کے ساتھ ہی ہم بالخصوص امریکی اخبار کو مخاطب کرکے یہ بھی کہیں گے کہہرایک آدمی کی رائے اِس کے ذاتی تجربے کے مطابق ہوتی ہے اِس پر کسی دوسرے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتاہیاور اب ہم آخر میں افغان صدر حامد کرزئی جو روس افغان جنگ کے دوران اپنی جان بچاکر پاکستان بھاگ کرچلے آئے تھے اور کئی سال ہمارے ہی یہاں روپوش رہے او رہمارے ہی نمک پر اپنی زندگی کی سانسوں کو تقویت دیتے رہے آج یہی ہمارے احسانوں کو بھلاکر امریکیوںاور بھارتیوں کے کاندھوں پر سوار ہوکرہم پر ہی آنکھیں دکھارہے ہیں گوکہ اب اِنہیں بھی سیاست کرنی آگئی ہے اِس کا اندازہ ہمیں پچھلے دنوں اس وقت ہواکہ جب کرزئی نے ایک پاکستانی نجی ٹی وی کوانٹرویودیتے ہوئے حکومت پاکستان کو خبردار بھی کردیااور عندیہ بھی کچھ اِس طرح سے دے دیاکہ امریکایا بھارت نے حملہ کیاتو افغانستان پاکستان کا ساتھ دے گا اِس سے ہمیں اندازہ ہواکہ کرزئی کو سیاست آگئی ہے اِس پر بحث ہم اپنے اگلے کسی کالم میں کریں گے فی الحال ہم یہ کہہ کراجازت چاہیں گے کہ اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ امریکا اپنی بات اونچی رکھنے کے لئے خود یا بھارت سے پاکستان پر حملہ کرواسکتاہے جسکامنہ توڑ جواب دیناہمارے حکمرانوں اور عسکری قیادت کے لئے ضروری ہے اور جس کے لئے ہمارے سول اور عسکری قیادت کو عوام اور پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیناہوگااور کسی امریکی دباوکے باعث اپنے ہی علاقوں میں نیاجنگی محاذ کھولنے سے پہلے اِنہیںسومرتبہ یہ سو چناہوگاکہ کہیں ایساتو نہیں کہ امریکا نئے محاذمیں ہمیں الجھاکر ہم پر حملے کے لئے بھارتی عزائم کو توتقویت نہیں دے رہا ہے۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم