پتھروں سے بھی پہلے

Imran Khan Rajput

Imran Khan Rajput

آج کل پاکستان میں ہر سیاست دان جمہوریت کا نعرہ الاپتا نظر آتا ہے اور وہ یہ نعرہ لگائے بھی کیوں نہ یہ جمہوریت ہی تو ہے جو زرداری صاحب جیسے شخص کو صدارت کے سنگھاسن پر بیٹھا سکتی ہے جو راجہ جی جیسے ناکام وزیر کو وزارتِ عظمی سے نواز سکتی ہے جو میاں صاحب جیسے لیڈر کو ایک ٹکٹ میں دو مزے کراسکتی ہے ایک طرف حکمرانی سے لطف اندوز کراتی ہے تو دوسری طرف بہترین اپوزیشن کا کردار نبھانے کا پورا پورا موقع فراہم کرتی ہے۔بھلا یہ لطف یہ مزہ یہ عیش و عشرت یہ آزادی یہ آشائشیں یہ سہولیات یہ مست بھری زندگی ،بینکوں سے قرضوں کا آسان حصول اداروں میں لوٹ کھوسٹ کا گرم بازار سیاستدانوںکے یہ بنیادی حقوق انھیں ایک فوجی دورِ حکومت میںبھلا کہاں مل سکتے ہیں اسی لئے تو کہتے ہیں فوجی حکومت لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کردیتی ہے

اب یہ لوگوں میں کون شامل ہیںوہ جمہوری حسن پرست جن کا تذکرہ ہم اوپر کرچکے ہیں یا پھر وہ عام لوگ جو جمہوری دور میں بھی غربت کی چکی میں پسے بھوک و افلاس کا شکا ر بے یارو مددگار غربت سے تنگ خود کشی کرنے والے زندہ رہے کر بھی روز روز مرنے والے اچھے خاصے جمہور سے بچہ جمہور ہ بننے والے جواِن جمہوری حسن پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

جس طرح ایک مداری ڈگ ڈگی کی تھاپ پر بندر کو اپنے اشاروں پر نچاتا ہے بالکل اسی طرح یہ سیاسی مداری بھی جمہوریت کی ڈگ ڈگی بجا کر آمریت کا خوف دلاکر قومیتوں کا سُر لگا کر اس ملک کی معصوم بھولی بھالی عوام کو جس طرح چاہیں جیسے چاہیں اور جب چاہیں اپنے اشاروں پر نچاتے ہیں اور ساری دنیا میں اس کا تماشہ بنواتے ہیں اور یہ بھولی عوام ان مداریوں کے جھانسے میں آکر وہ وہ کرتب دِکھاتے ہیں جن کی مثال نہیں ملتی ہمارے ملک کے سیاستدان جمہوریت کے اتنے بڑے شیدائی ہیں کہ شاید دنیا میں کہی بھی موجود نہ ہوں ملک کا بیڑا غرق ہوتا ہے تو ہوجائے لیکن جمہوریت پٹری سے نہیں اترنی چاہیئے ملک کی عوام بدحال ہوتی ہے تو ہو لیکن جمہوریت کا حسن متاثر نہیں ہونا چاہئے ۔بس کسی بھی طرح جمہوریت چلتی رہنا چاہیے تا کہ ان سیاسی مداریوں کی دکان چلتی رہے اور جاگیریں بنتی رہیں ۔

ملک دشمن عناصر ملک توڑنے کو تیا ر بیٹھے ہیں اور ہمارے سیاستدان آپس میں سر جوڑنے کو تیا ر نہیں ہماری عوام کچھ سوچنے کو تیار نہیں سڑکوںپر آنے کو تیار نہیں وہ تو بس ڈگ ڈگی کی منتظر رہتی ہے ملک کی کسی کو فکر نہیں ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹے قوم کی تقدیر پھوٹتی ہے تو پھوٹے ملک ٹوٹے گا سندھ تو نہیں ملک ٹوٹے گا پنجاب تو نہیں ملک ٹوٹے گا خیبر پختون خواں تو نہیں پاکستان ٹوٹے گا بلوچستان تو نہیں ۔ جب یہ سوچ نسلوں میں بھردی گئی ہو تو سوچیں ملک کی پرواہ کون کریگااور یہ حقیقت ہے آج پاکستان کا کسی کو خیال نہیں سب کے ضمیر سوئے ہوئے ہیں سب کی آنکھیں بند ہیں ملک کی کسی کو پرواہ نہیں ہاں اگر صوبے تقسیم کرنے کی بات ہونئے صوبے بنانے کی بات ہو تو سب کی غیرت جاگ جاتی ہے سب کی آنکھیں کھل جاتی ہیں آج ہم جتنی محبت اپنے صوبوں سے کرتے ہیں کاش اتنی محبت اتنا پیار ہم اپنے ملک سے کرتے تو آج ہمارا پیارا پاکستان کہاں سے کہاں ہوتا۔

Pakistan Map

Pakistan Map

ایک قوم بن کر آنے والے مختلف قوموں میں کیسے بٹ گئے شاید یہ کمال بھی جمہوریت کے شیدائی جمہوری حسن پرست ان مداریوں کا ہے جو 65 سالوں سے ڈگ ڈگی کے سحر سے معصوم بھولی بھالی عوام کو مدہوش کئے ہوئے ہیں ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہا ہے لیکن پاکستان کو ان مشکلوں سے نکالنے کے لئے کوئی سنجیدہ نہیں ملک کو کون بچائے گا اس کی فکر کسی کو نہیں سیاستدانوں سے اس کی امید چھوڑدیں وہ اپنے آپ کو بچانے میں پورے ہیں ملک کو کیا خاک بچائیں گے اس ملک کی بھولی بھالی عوام سے بھی کوئی امید نظر نہیں آتی اسے تو بس ڈگ ڈگی پر دھمال ڈالنی آتی ہے

میری اس ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں سے گزارش ہے اس دھرتی کے بیٹوں سے گزارش ہے مستقبل کے معماروں سے گزارش ہے کہ اٹھو یہ دھرتی یہ پاک وطن تمہیں پکار رہا ہے اٹھو اپنے وطن کو سنبھالوں اور نجات دلائوغاصبوں سے چوروں سے لٹیروں سے جو اس ملک کو اپنی جاگیریں بنا بیٹھیں ہیں ہمارے باپ دادائوں نے اس ملک کوظاہری فرنگیوں سے آزاد کرایا تھا اٹھو تمہیں روحانی فرنگیوں سے اس ملک کو چھٹکارہ دلانا ہے یہ ملک تمھارا ہے اسے تم نے ہی سنبھالنا ہے 65 سال ہوگئے ہیں اب نہ اٹھے تو کب اٹھوگے کہی ایسا نہ ہو کے تاریخ ہمیںکبھی معاف نہ کرے

یاد رکھو یہ دھرتی اور اس دھرتی میں شامل بزرگوںکا خون تم سے پوچھے گا تمہیں جواب دینا ہوگا کیا جواب دوگے سوچووقت گزرتا جارہا ہے لو گ اب قائدِاعظم کی جگہ ابوالکلام کے نظریے کی حمایت کرنے لگے ہیں یہی تو دشمن چاہتا ہے اٹھو اپنے بڑوں کی لاج رکھو اب تو دشمن بھی ہمیںدیکھ کر ہنستا ہوگا کہ ہم نے تو پتھروں کے دور کی بات کی تھی یہ تو اس سے بھی پہلے بندروں کے دور میں جاچکے ہیں۔

تحریر : عمران احمد راجپوت
حیدرآباد، سندھ