پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر

jaan lewa

jaan lewa

پھول چاہے تھے مگر ہاتھ میں آئے پتھر
ہم نے آغوشِ محبت میں سلائے پتھر

وحشتِ دل کے تکلف کی ضرورت کے لیے
آج اُس شوخ نے زلفوں میں سجائے پتھر

ان کے قدموں کے تلے چاند ستارے دیکھے
اپنی راہوں میں سلگتے ہوئے پتھر

میں تری یاد کو یوں دل میں لیے پھرتا ہوں
جیسے فرہاد نے سینے سے لگائے پتھر

فکرِ ساغر کے خریدار نہ بھولیں گے کبھی
میں نے اشکوں کے گہر تھے جو ہٹائے پتھر

ساغر صدیقی