پیروں کے روپ

peer baba

peer baba

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میرے سامنے بیٹھا سجا دہ نشین فرعونیت کا مجسمہ بنا ہوا تھا اُس کی گفتگو اور جسمانی حرکا ت بتا رہی تھیں کہ کر ہ ارض پر اس وقت تمام انسانوں سے بڑھ کر افضل اور عظیم اگر کو ئی ہے تو یہی ہے ۔ اپنے مریدوں کے سا تھ وہ زر خرید غلاموں جیسا برتا ئو کر رہا تھا ۔ کیونکہ غرور تکبر فرعونیت اُس کی نس نس میں سما چکی تھی ۔ اِس لیے وہ ہمیں بھی متکبرانہ نظروں سے ہی دیکھ رہا تھا ۔ لیکن میں اِس پیر اور وطن عزیز کی بہت ساری گدیوں کے دنیا دار پیر پرستوں سے اچھی طرح واقف ہو چکا تھااِس پیر کی اصلیت میں فیصل آباد کے شیخ کے سامنے دیکھ چکا تھا جس کے استقبال کے لیے یہ اپنی شاہی مسند سے چھلانگ لگا کر دوڑتا ہوا با ہر گیا تھا اور پھر اُس کے سامنے بھیگی بلی بنا اُس کی خو شامدیں کر تا رہا ۔ با قی نا م نہاد پیروں کی طرح یہ بھی امیروں با اثر لوگوں کے سامنے مجسمہ خو شامد اور عام لو گوں کے سامنے مجسمہ فرعونیت مجھے آج بھی یا د ہے کسی پیر صاحب کا بہت زیادہ چرچہ تھا کہ وہ دنیا سے بے نیاز ہو چکے ہیں اور امیر غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھتے اُن کی شہرت سن کر میں ایک بہت بڑے پو لیس آفیسر کے ساتھ اُن کے آستا نے پر گیا ۔

ہم بھی عام زائرین میں شامل ہو گئے میں نے دانستہ طور پر کسی کو نہیں بتا یا کہ میرے ساتھ محکمہ پو لیس کے بہت بڑے آفیسر ہیں ۔ ہم سب کو جا نوروں کی طرح ہا نک کر پیر صاحب کے حضور پیش کیا گیا ۔ پیر صاحب کے پاس پہلے سے ہی اُن کے خاص چند لو گ بیٹھے تھے اُن لو گوں کے لباس اور انداز سے ہی لگ رہا تھاکہ یہ معاشرے کے با اثر اور دولت مند لو گ ہیں پیر صاحب اُن کے ساتھ خو ش گپیوں میں مصروف تھے اور عام زائرین کو بھی ٹر خا تے جا رہے تھے پیر صاحب ہا تھوں پر دستانہ چڑھا ئے لو گوں سے مصافحہ کر تے اور خا دم ملا قاتی کو دھکا دے کر آگے دھکیل دیتا اگر کسی نے پیر صاحب کا بو سہ لینے کی کو شش کی تو پیر صاحب نے دستانے کے اوپر ٹشو پیپر رکھ دیا تا کہ مرید کی الرجی یا کو ئی بیما ری پیر صاحب کو بیما ر نہ کر دے ۔ پیر صاحب اور اُن کے دوست خشک میوہ جا ت اور تا زہ پھلوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے ۔

Police Officer

Police Officer

ہم بھی لا ئن میں لگے اُن کے قریب آگئے میرا دوست پولیس آفیسر آگے تھا وہ مل کر آگے ہوا تو میری با ری آئی مجھے بھی پیر صاحب نے آگے دھکیلنے کی کو شش کی تومیں نے آہستہ سے کہا جنا ب میرے آگے میرا دوست فلاں پو لیس آفیسر ہے یہ سنتے ہی پیر صاحب جو گا ئو تکیہ لگا کر تقریباً لیٹے ہو ئے تھے ایک دم اِسطرح اُٹھے جیسے اُن کے جسم میں بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو فوری طور پر خا دموں کو اشارہ کیا پھر خادم کے کان میں کچھ کہا تو ایک دم ہم دونوں کے علا وہ تمام لوگوں کو کمرے سے نکا ل دیا گیا ۔ پیر صاحب کے چہرے پر غرور اور کروفر کے تا ثرات ایک دم ختم ہو گئے اب پیر صاحب کی جگہ ایک مرا ثی نما شخص بیٹھا تھا ۔ جو اب میرے دوست کو جپھیاں ڈال رہا تھا بار بار مصافحہ لے رہا تھا ۔فوری طور پر اپنے دوستوں کو بھی اُن کا تعارف کر ایا ۔ میں اور میرا دوست حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ یہ وہی پیر صاحب ہے جن کی بے نیازی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہو ئے ہیں ۔ ہما رے لیے فوری طور پر بہت سارے تا زے پھل جو سز اور گر ما گرم تکے کباب منگوائے گئے میں اور میرا دوست معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے کہ عام ملا قا تیوں کے ساتھ پیر صاحب ایک دم پیر سے مراثی بن گئے اب وہی پیر صاحب فروٹ اور جو سز پیش کر رہے تھے اور میں محو حیرت انسان بدلتا ہے کیسے کیسے رنگ دیکھ رہا تھا ۔ اب پیر صاحب نے فوری طور پرہما رے لیے آب زم زم کھجو ریں عطر ، پر فیوم بو سکی کا کپڑا اور بہت سارے تحائف منگوا ئے میں حیرانی سے پیر صاحب کی اوچھی حرکتوں کو دیکھ رہا تھا ۔ پیر صاحب کی بکواس گفتگو سے میری طبیعت خراب ہو نے لگی ہم نے پیر صاحب کے تحائف وہیں چھوڑے اور بھا گ کر کمرے سے نکلے کہ یہ چشمہ معرفت ہے یا دنیا داری تو یہ آپ وطن عزیز کی کسی بڑی گدی پر جا کر ایسے نظارے خو داپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔

اِسی طرح میرا ایک دوست جو میری طرح بچپن سے روحانیت کی تلا ش میں در در بھٹکا ہے ۔آخر ایک جگہ بیعت ہو گیا مجھے بہت زیا دہ خو شی ہو ئی کہ چلو اُس کو منزل تو ملی وہ بار بار مجھے کہتا کہ میں بھی وہا ں جا کر اُن کے پیر صاحب کے ہا تھ پر بیعت ہو جا ئوں ۔میں پہلے تو انکا رکر تا رہا لیکن جب میرے دوست نے بہت زیا دہ اصرار کیا تو میں دوست کے مرشد خا نے پر جا نے کے لیے تیا ر ہو گیا اب ایک دن میرے دوست کا فون آیا کہ میرے مرشد خا نے پر سالا نہ عرس ہے ہم نے فلاں دن وہاں جا نا ہے میں بھی تیا ر ہو گیا اب ہم مقررہ دن وہا ں پر پہنچ گئے ۔ میرے دوست نے پہلے سے وہاں پر میرے با رے میں کچھ بتا یا ہوا تھا ۔ہم جیسے ہی وہاں پہنچے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ہمیں Stage پر بڑے احترام سے بیٹھادیا گیا پیر صاحب کا خوشامدی ٹولا پیر صاحب کی قصیدہ نگاری میں لگا ہوا تھا اور پھر اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پیر صاحب کی دنیاداری کا رنگ دکھا دیا ۔ اچانک بہت ساری گاڑیوں کا کارواں بہت سارے سیکو رٹی گارڈوں یا محا فظوں کے ساتھ وہا ں پر آگیا ۔ پو رے پنڈال میں بھونچال آگیا ۔

Humans

Humans

بھگڈر سی مچ گئی آنے والا سیا سی و ڈیرہ تھا اُس کے لیے راستہ بنا نے کے لیے لو گوں کو اِدھر اُدھرکیا جا رہا تھا تا کہ وڈیرہ جی آرام سے اسٹیج تک آسکیں اِس کے ساتھ ہی وڈیرے کے آنے کی خو شی میں ہوا ئی فا ئرنگ اور آتش با زی کا مظاہرہ شروع ہو گیا ہوا ئی فا ئرنگ آتش با زی کے ساتھ خو شامدیوں نے وڈیرے کے حق میں نعرے با زی بھی شروع کر دی جیسے وڈیرہ نہ کو ئی بہت بڑا پیر یا بزرگ آیا ہو ۔ اب وڈیرے کے گا رڈوں نے اسٹیج پر دھا وا بو ل دیا اور آتے ہیں حکم دیا کہ غیر ضروری لو گ اسٹیج سے اتر جا ئیں میں حالات کی نزاکت کو بھا نپتے ہو ئے پہلے ہی اسٹیج سے اتر کر ایک طرف کھڑا ہو کر انسانوں کی دھینگا مشتی اور دنیا دار پیر کی قلا با زیاں اورڈرامے بازیاں دیکھ رہا تھا ۔ میرا دوست جو ابھی تک اسٹیج پر بیٹھا تھا اُس کو بھی اسٹیج سے اترنے کو کہا گیا ۔

جب میرے دوست نے اترنے سے انکا رکیا تو محافظوں نے میرے دوست کو پکڑا ورا سٹیج سے نیچے دھکیل دیا ۔ میرا دوست جو دن رات اپنے پیر اور پیر خانے کے گن گاتا تھا شدید شرمندگی اور احساس ذلت میں غرق منہ چھپا تا پھر رہا تھا اُس نے ڈھیٹ ہو کر دوبا رہ اسٹیج پر جانے کی کو شش کی تو اِسی کو شش کے دوران دھینگا مشتی میں کسی نے اُس کا گریبان پکڑا اور اُس کی قمیض کو پھا ڑ دیا میرادوست جب پھر بھی باز نہ آیا تو نو بت ما ر کٹا ئی تک آگئی میرے دوست سے یہ شرمندگی اور ذلت بر داشت نہ ہورہی تھی اِس شرمندگی اور نا روا سلوک نے میرے دوست کے دماغ اور جسم میں آگ بھر دی اُس کو ٹھنڈا کر نا ضروری تھا میں نے دوستوں سے کہا اُس کو پیا ر سے پکڑ کر میرے پا س لائیں بڑی مشکل سے میرے دوست کو ہجوم سے با ہر نکا لا گیا ۔ بیچارہ جب میرے سامنے آیا تومارے شرم کے نظر نہیں ملا رہا تھا میں نے اُس کو حوصلہ دیا کہ کو ئی با ت نہیں رش میں ایسا ہو جا تا ہے ۔ میرا دوست جو پچھلے کئی مہینوں سے اپنے پیر کی مدح خوا نی میں لگا ہوا تھا اُس کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی آپ اِن کے سالانہ عرسوں پر جا کر دیکھیں جہاں پر عام لوگوں کا لنگر کچھ اور ہو تا ہے جبکہ خواص لوگوں کا لنگر خصوصی طور پر بنوایا جا تا ہے عام لوگوں کے سامنے اِن کے پیروں کا روپ کچھ اور ہو تا ہے جبکہ دولت مند با اثر لوگوں کے سامنے اِن کا روپ دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ وہی پیر صاحب ہیں ۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956