چوہدری نثار علی اور رحمنٰ ملک کے اپنے اپنے کام

zardari

zardari

ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ صرف ہمارے ہی یہاں نہیں بلکہ دنیا کی ہر اپوزیشن کے نزدیک اِن کی جمہوری حکومتوں میں صرف وہی کام جمہوری کہلاتے ہیں جن سے فائدہ اپوزیشن کو ہو رہا ہواور اگر حزبِ اختلاف کو اِن کے اپنے سیاسی مفادات کے کاموں میں حکومت قانونی تقاضے پورے کرائے توپھریہی اپوزیشن ہوتی جو ایک لمحہ بھی ضیائع کئے بغیراپنی ہی جمہوری حکومتوں پر آمرانہ اقدامات جیسے الزامات لگاکر طعنہ زنی شروع کردیتی ہے اور اِس طرح اپنی اپوزیشن کے اِس طرح کے فعلِ شنیع سے دنیاکے کسی بھی مہذب ملک کے باسی اپنی حزبِ اختلاف کے منافقانہ فعل اور رویوں کابھیبخوبی اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ اپنے ملک اور قوم کے لئے کیا کچھ کرسکتی ہے اور یوں عوام کا اپنی اپوزیشن کی جماعت یا جماعتوں کے مجموعہ پر سے اعتبار اور اعتماد اٹھ جاتاہے جیسے اِن دنوں ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کا اپنی اپوزیشن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ اور اِس کی اتحادی جماعتوں اور ہم خیال گروپوں پر سے ختم ہو گیا ہے۔ اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں اِس معاملے میں جنوبی ایشیائی ممالک کی اپوزیشن جماعتیں بھی کچھ پیچھے تو نہیں ہیں مگر یہ کسی ترقی یافتہ ملک کی اپوزیشن سے کچھ کم بھی نہیں کہی جاسکتی ہیں اِن کا بھی ایساہی حال ہے جیسا دنیا کے دیگر ممالک کی اپوزیشن کا ہوتاہے بلکہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہورہی ہے کہ ہمارے ملک کی اپوزیشن کی جماعتیں تو اپنے مفادات کے حصول کے خاطر اس حد کو بھی بسااوقات پہنچ جاتی ہیں جہاں دنیا کی کوئی اپوزیشن نہیں جاسکتی ہے۔ بہرحال!ہمیں یہ بات یوں کہنی پڑی ہے کہ ہمارے ملک سے تعلق رکھنے والی موجودہ حکومت کی ایک بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) جس کے سربراہ میاں محمد نوازشریف ہیں اِن کی جماعت نے جب سے موجودہ حکومت میں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنا شروع کیا ہے اِس کا اول روز سے ہی یہ ایک اچھا نظریہ اورخیال رہاہے کہ ہر ایسا ملکی معاملہ جو خواہ کتناہی سنگین یا معمولی نوعیت کا کیوں نہ ہو اِس کا حل صرف اور صرف ایوان بالا میں تلاش کیاجائے کیوں کہ جب کسی ملکی مسلے کو ایوانوں میں پیش کرکے جب اس کا حل نکال جاتاہے تو وہی حل مجموعی طور پر اتفاقِ رائے کے بعد ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا نہ صرف باعث بنتاہے بلکہ ہر حوالے سے ملک اور قوموں کے استحکام کا بھی ضامن ہوتاہے اِس منظر اور پس منظر میں آپ بھی ہماری اِس بات سے پوری طرح سے متفق ہوں گے کہ ہماری اپوزیشن کا یہ نظریہ اور خیال یکدم درست معلوم دیتاہے اور اِس پر حکومت سمیت ساری پاکستانی قوم بھی متحد دکھائی دیتی ہے اور اپنی اپوزیشن کی اِس حوصلہ افزا سوچ اور اِس کے اِس مثبت اور تعمیری نظریئے پر اِس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔
مگرگزشتہ دنوں اِس کی اِس سوچ اور نظریئے میں یکایک پیداہونے والی تبدیلی وتضاد اور اِس کے منافقانہ فعل کی وجہ سے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام اس وقت حیران اور پریشان رہ گئے جب ساڑھے تین سال تک ایوان میں حزبِ اختلاف کا رول اداکرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنے قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان کی قیادت میں پی پی شیرپاو، جے یوآئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم خیال گروپس کے ساتھ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بدامنی پر پارلیمنٹ سے ایوانِ صدر تک احتجاجی مارچ کیا اور جس کے بعد اِن اپوزیشن کی جماعتوں کے رہنماوں اور کارکنوں نے ملک میں جمہوری حکومت کا پھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر ایوان صد ر کے سامنے دھرنا بھی دیا جو کافی دیر تک جاری رہا ہے۔  اگر چہ یہ اس اپوزیشن کے نزدیک غیر جمہوری دھرنا قطعانہیں تھا جو یہ سمجھتی ہے کہ ہر مسلے کا حل ایوان سے نکالا جائے تودور رس نتائج سامنے آتے ہیں مگر جب اِس نے اپنی اِس عادت اور قول و فعل کے برعکس یہ راستہ اختیار کیاتو یہ اِس کے نزدیک درست فعل تھاجبکہ دوسری جانب حکومتی سطح پر یہ خیال کیاجاتارہاکہ اپوزیشن نے آج جو رویہ اختیار کیا ہے وہ خلافِ ضابطہ ہے مگر اِس کے باجود بھی یہ موجودہ حکومت کی اعلی ظرفی اور بالغ النظری یہ رہی کہ اِس نے اپوزیشن کے اِ س دھرنے کو پوری طرح سے کامیاب بنانے اور اِسے آخری وقت تک منتشرکرنے کے بجائے اِس دھرنے کے شرکاکے لئے سخت ترین حفاظی انتظامات کرکے شاہراہ دستور پر سیکورٹی والوں کی بڑی تعداد تعینات کردی تھی تاکہ اپوزیشن اراکین اپنے مارچ اور ایوانِ صدر کے سامنے اپنے دھرنے اور اپنے فلک شگاف گوزرداری گوزرداری ،زرداری ہٹاو ملک بچاو،ملک گیاتیراشوزرداری، گوزرداری گوزرداری اور کرپٹ حکومت نامنظور جیسے نعروں کا شوق پوراکرسکیں اورباوجود اِس کے کہ ایوان میں قائد حزب اختلاف کا کردار اداکرنے والے پاکستان مسلم لیگ کے چوہدری نثار علی خان نے اِس موقع پر اپنے خطاب کے دوران ساڑھے تین سالہ حکومتی اقدامات کا تذکرہ کرتے ہوئے صدرِ مملکت عزت مآب سید آصف علی زرادی کی ذات کو بھی کھلم کھلاہدفِ تنقید بھی بنایا اور اِن کی شخصیت کو نشانہ بناتے ہوئے جس طر ح کے لفاظ اور زبان استعمال کی ہے وہ کسی بھی لحاظ سے اِن جیسے سمجھدار اور انتہائی سلجھے ہوئے سیاست دان اورقائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان کو قطعازیب نہیں دیتے کہ وہ اپنے ہی ملک کے صدرمملکت کا نام لے کر یہ کہیں کہ صدرزرداری تمام مسائل کی جڑ ہیں۔
اب یا تو حکمران عوام کی آوازسنیں گے یا پھر عوام ایوان صدرمیں موجوداِس آفت سے نجات پائیں گے اِن کے علاوہ اِس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قائد حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان ہی کی جماعت کے ایک انتہائی سرگرم اور شعلہ بیاں رکن جو اکثر ملکی نجی اور سرکاری ٹی وی چینلز پر حکومت پر کھلی تنقیدوں کے تیربرساتے نظر آتے ہیں اورجو اِس حوالے سے کافی مشہور بھی ہیں یعنی مسٹر احسن اقبال نے بھی خطاب کیا جو اِس دوران ہمارے موجودہ صدر سیدآصف علی زرداری اور حکومت کو متنبہ کرتے رہے کہ متحدہ اپوزیشن کاایوانِ صدر کے باہرہونے والا یہ پاور فل مظاہرہ اِس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کو درپیش بحرانوں کے اصل ذمہ دارصرف اور صرف زرداری ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ احسن اقبال نے تو صدر زرداری پر اپنے آبے سے باہر ہوتے ہوئے انتہائی شدت جذبات سے الزام لگاتے ہوئے یہ تک کہہ ڈالا کہ یہ صدرزرداری ہی ہیں جو کہ ایوان ِ صدر میں بیٹھ کر ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں اور اپنی پارٹی بھی چلارہے ہیں۔
حکومت کو بھی اپنی مٹھی اور کنٹرول میں رکھاہواہے اور تمام کرپٹ عناصر کو اپنی چھتری فراہم کررکھی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے صدر زرداری کی کردارکشی کرنے اور حکومت پر الزام تراشیاں کرنے کا اب بھر پور جواب حکومت کی جانب سے بھی جلدازجلد ضرور سامنے آنا چاہئے ورنہ تو مجھ سمیت ملک کے معصوم عوام یہ سمجھیں گے کہ ایساہی ہے جس کا تذکردہ اپوزیشن بے دھڑک اور اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کرکرتی پھر رہی ہے۔
بہر کیف !ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانا ہر دور میں ایک فیش رہاہے مگر اِس کی پاسداری کرنا کسی پر بھی لازم نہیں رہاہے یعنی یہ کہ جب بھی سیاست دانوں کو آمروں کے چنگل سے نکالنے کا موقع ہاتھ لگاتو انہوں نے مختلف مواقع پر اپنے اتحاد سے جمہوری حکومتوں کوتو ضرور تشکیل دیامگر ہر بار اِن کا اتحاد چند ماہ بعد یکدم کسی سانجھے کی ہنڈیا کی طرح بیچ چوراہے پر ٹوٹتارہاہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ اِسی کو ہی دیکھ لیں اٹھارہ فروری 2008کے انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومت میں آج ایوان میں حزبِ اختلاف کا رول اداکرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی تو شامل تھی مگر کچھ اہم وزارتوں کی بندر بانٹ میں کھینچاتانی کی وجہ سے اِ س نے حکومتی اتحاد سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور ایوان میں دنیا کی ایک ایسی فرنیڈلی اپوزیشن کا کردار اداکرنے کی ذمہ داری قبول کی۔
جو حکومت کے ساتھ بھی بغیر وزارتوں کے رہے گی اور اپوزیشن کا بھی کام کرے گی مگر جیسے جیسے وقت کھستے کھستے آگے کی جانب بڑھتارہا اور ملکی سیاسی حالات اور واقعات بدلتے رہے تووہیں ایوان میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار اداکرنے والی اِس جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کوبھی سیاسی، مذہبی اور عوام حلقوں میں پسِ پردہ حکومت کا ساتھ دینے اور ایوان میں فرینڈلی اپوزیشن کا رول اداکرنے کے طعن بھی ملتے رہے اور اِس طرح ن لیگ اپنے اِس فعل پر ایک بڑے عرصے تک صرف ملک ہی میںنہیں بلکہ بیرون ملک بھی شدید تنقیدوں کی زد میں رہی اور جب اِس کی برداشت کی حد ختم ہوگئی اور ایسے یہ احساس ہوگیاکہ اب اِسے حکومت میں دوبارہ جگہہ بنانے اور اپنی پسند کی وزاتوں کے لئے کہیں سے نقب زنی کرنے کا موقع نہیں ملے گا تو اِس نے اپنے ساتھ لگے فضول کے فرینڈلی اپوزیشن کے لفظ فرینڈلی  کو کھرچ کر ختم کرڈالا اور دنیاکے سامنے ورلڈ کے دوسرے ممالک کی طرح اوریجنل اپوزیشن کا رول اداکرنے کی ٹھان لی یوں جب سے پاکستان مسلم لیگ ن ایوان میں ایک حقیقی حزبِ اختلاف کا کردار اداکرنے میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش میں لگی پڑی ہے۔
جس کی مثال یہ وقتافوقتا حکومت کے اچھے برے اقدامات پر اپنی آواز بلند کرکے اور اکثراپنے حامیوں کے ساتھ مل کر اور کبھی اپنے نمائندوں کے ذریعے عوام کو حکومت کے خلاف اکساکر اِنہیں سڑکوں پر لاکر اور پرتشدد مظاہرے کرواکر اپنا حزبِ اختلاف ہونے کا کردار اداکرکے دنیاکو یہ بتادینااور جتا دیناچاہتی ہے کہ یہ موجودہ حکومت کے طاقتورترین صدر زرداری کی طرح ایک طاقتورترین اپوزیشن بھی ہے جس کی تازہ مثال اِس نے گزشتہ دنوں پنجاب کے مختلف شہرو ں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگائی سمیت دیگر دوسرے ناقص اور فرسودہ حکومتی قدامات کے خلاف عوام کو اکساکر اورپر تشدد مظاہرے کرواکردیاجب اِس سے بھی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی تو پھر اِس نے خودپارلیمنٹ سے ایوانِ صدر تک مارچ اور دھرنادے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے اِن غیر قانونی فعل کے باجود ہم حکومت کے صبرو برداشت اور اِس کی تحمل مزاجی کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہمارے صدرِ مملکت عزت مآ ب اور محترم المقام جناب سید آصف علی زرداری ، وزیر اعظم سیدزادے یوسف رضاگیلانی اور بالخصوص وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے اپوزیشن کا جمہوری تقاضوں کا پاس رکھتے ہوئے اس وقت بھی اِس کا اِس طرح سے ساتھ دیاجب پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے قائد حزب اختلاف اپنی جماعت کے رہنماوں اور کارکنوں کے ہمراہ مارچ شروع کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے تواِسی دوران چوہدری نثار علی اور رحمن ملک کا آمناسامناہواتو رحمن ملک نے جذبہ خیر سگالی کا پھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے چوہدری نثار علی سے دوقدم آگے بڑھ کر انتہائی گرم جوشی سے اِن سے مصافحہ کیا اور رحمن ملک نے پرتباک انداز سے چوہدری نثارعلی خان کو مخاطب کر کے کہاکہ آپ میرے دوست ہیںاِس لئے یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ جو کچھ کرنے جارہے ہیں وہ غلط ہے۔
مگر پھر بھی میں نے آپ کے احتجاجی دھرنے کے دوران آپ کے شرکائے احتجاج کی سیکورٹی کا مثالی بندوبست کرکے اپنا کام خوش اسلوبی سے پوراکردیاہے اب آپ کا جو کام ہے وہ آپ کریں یہاں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے اِس اپنایت اور محبت بھرے جملوں کے بدلے میں قائدِ حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے انتہائی کڑوے انداز سے جیسے یہ کریلے چبارہے ہوں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کومخاطب کرکے جواب دیاکہ دوست احسان نہیں جتاتے بس کام کرتے ہیں جو تمہاراکام تھا تم نے کیا اوراب ہمارا جو کام ہے وہ ہم کریں گے۔ ہماراخیا ل یہ ہے کہ اِن لمحات میں جب کہ ہمارا ملک ایک انتہائی نازک موڑ سے گزررہاہے اپوزیشن کی جماعتوں کو حکومت کے خلاف ایسے حربے استعمال ہرگزنہیں کرنے چاہیں جس سے حکومت پریشانیوںکا شکار ہوکر رہ جائے اور یہ اپنے اندرونی معاملات کو سلجھانے کے چکر میں پڑکر بیرون ممالک(امریکا،بھارت، اسرائیل اور اپنے ٹکڑوں پر پلنے والے افغانستان )کی جانب سے آنے والے خطرات کا تدارک بھی نہ کرسکے جبکہ یہ ٹھیک ہے کہ جمہوریت میں حزب ِ اختلاف کو اپنا حق اداکرنے کا پوراپوراموقع ملتاہے اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیںکہ اِسے ملنابھی چاہئے مگراِس کے ساتھ ہی اِسے بھی تو اِس بات کاضرور ادراک ہوناچاہئے کہ کیاموجودہ ملکی حالات اورواقعات اِ سے اِس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اِن نازک حالات میں اپنی سیاست چمکانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دے اور حکومت کے خلاف عوام کو اکساکرسڑکوں پر لائے اور نقص امن کا مسلہ صرف اِس لئے پیداکر ے کہ حکومت اِن سے پریشان ہوکر اقتدار چھوڑ دے توہم اِس منظر اور پس منظر میں یہی کہیں گے کہ اگرہماری اپوزیشن کی جماعت اور جماعتیں حکومت کا اِس نازک وقت میں جب کہ امریکا جو بظاہر ہمارا دوست ہے۔
مگر اپنے مفادات کے خاطر وہ ہم کو بھی نشانہ بنانے سے پیچھے نہیں ہٹے گااور بھارت ، اسرائیل اور ہمارے ٹکڑوں پر پالنے والا افغانستان جو آج امریکا اور بھارت کی گود میں بیٹھ کر ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اِن سب سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے اِسے ہٹانے کے لئے اِس طرح کی کسی سازش کا شکار ہورہی ہیں تو یہ اِن کا ایک ایسامکروہ فعل ہوگااور اگر ایسے میں ملک کو کچھ ہوگیا تو پھر اِس کا ازالہ بھی ہماری اقتدار کی ہوس میں مبتلا یہ سیاسی جماعتیں نہیں کرسکیں گیں۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم